Table of Contents
غلام رسول وَلایتی؛ ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈپارٹمنٹ آف فیتھ اینڈ ریزن
مقدمہ
یہ ایک نہایت اہم اور گہرا موضوع ہے، کیونکہ اللہ کی صفتِ لامکانی کا سمجھنا ہماری معرفتِ الٰہی میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے ارشادات میں بارہا اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اللہ مکان اور زمان سے ماورا ہے۔
لامکانی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی خاص جگہ میں محدود نہیں ہے، کیونکہ مکانیت خود مخلوقات کی صفات میں سے ہے۔ اگر کوئی چیز مکانی ہو، تو وہ لازمی طور پر کسی حد، جہت اور قیود کی محتاج ہوگی، جبکہ اللہ ان سب قیود سے پاک ہے۔ اس مضمون میں آپ اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ جان سکیں گے کہ کیوں اللہ کو کسی مکان میں تصور کرنا درست نہیں، اور اسلامی فلسفہ و کلامِ جدید میں اس حقیقت کی بہترین تشریح کی گئی ہے۔
(۔۔۔گذشتہ سے پیوستہ)
احاطہ لازم آنا
احاطہ سے مراد یہ ہے کہ اسے کسی شےنے گھیرا ہوا ہے، ایسی شے جو کسی کو اپنے احاطے میں لائے وہ زیاد بڑی اور عظیم ہوگی بنسبت اس کے جو گھیرے میں آیا ہو، مکان کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مکین کواپنے اندر سماتا ہے اور احاطے میں لے لیتا ہے۔ یوں یا تو مکان زیادہ بڑا ہے کہ مکین کا وزن اٹھاتا ہے یا برابر ہے۔ تو پہلی صورت میں واجب الوجود سے کوئی اور عظیم ہوا، تو یہ محال ہے ، دوسری صورت میں بھی اشکال ہے وہ یہ کہ دو قدیم ہونا لازم آتا ہےیا اجزا لازم آتے ہیں، تو ان دونوں کا ابطال ثابت کیا جو کہ گزر گیا۔ اگر علتِ اولی کو احاطہ شدہ مان لیا جائے تو وہ واجب الوجود نہیں ہے کیونکہ واجبُ الوجود کی صفت یہ ہے کہ اسے کسی مکان نے اپنے احاطے ميں لیا ہوا نہ ہو”وَلَا يَحْوِيهِ مَكَانٌ ” اور نہ ہی کسی شے ميں حلول کیا ہوا ہو”لَمْ يَحْلُلْ فِي الْأَشْيَاءِ” کیونکہ جسے اشیا اپنے تحویل اور قید میں مقید کریں یا وہ ہلکا ہوکر اٹھےگا یا وزنی ہوکر جھکے گا”فَتُقِلَّهُ أَوْ تُهْوِيهِ” ، جو کسی ظرف میں ہوتو ظرف میں ہونے کالازمہ یہ ہے کہ ظرف نے اسے اپنے ضمن میں لیا ہوا ہے "وَمَنْ قَالَ فِيمَ فَقَدْ ضَمَّنَهُ"، پس جو کسی کے ضمن میں ہو وہ وجودِ واجب نہیں ہے کہ اس میں دو قدیم لازم آئیں گے یا اجزا لازم آئیں گے۔ اس وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ "کہاں”ہے،یوں وہ ایک نقطہ پہ محدود ہوگیا "وَمَنْ قَالَ أَيْنَ فَقَدْ حَيَّزَهُ” پس اسے کسی قسم کا مکان چاہے وہ بالفعل نظر آئے یا نہ آئے اپنے احاطے میں لے نہیں سکتا ہے” وَ لاَ تَحْوِيهِ الْمَشَاهِدُ”
انتقال کا جائز ہونا
انتقال یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا۔ یہ ممکن الوجود کی صفت ہے، اوروجود کا محدود اور کمزور ہونے کی علامت ہے کہ وہ ایک جگہ پر تھا تو دوسری پر نہ تھا اور اسی جگہ محدود تھا، جب منتقل ہوجائے تو وہ جگہ اس سے خالی ہوئی”وَمَنْ قَالَ عَلاَ مَ فَقَدْ أَخْلَى مِنْهُ"۔ عقلی لحاظ سے مکان دار کے لیے اس مکان سے انتقال ممکن ہے، اگر انتقال جائز قرار دیا جائے تو اس کا متحرک ہونا لازم آتا ہے۔ سکون و حرکت دونوں ملکہ و عدم ملکہ (privation and possession opposite) کے مفاہیم میں سے ہیں، یہ دونوں ایک ایسے شے کی حالات اور صفات ہیں جس کی ذات میں حرکت یا سکون دونوں جاری ہوسکتے ہوں جو کہ مادے کی صفات ہیں لیکن ذاتِ واجب ان دونوں صفات سے منزہ ہے اوریہ دونوں ممکن الوجود میں سے ہیں "لَا يَجْرِي عَلَيْهِ السُّكُونُ وَ الْحَرَكَةُ وَ كَيْفَ يَجْرِي عَلَيْهِ مَا هُوَ أَجْرَاهُ"۔ جو بھی مکانی ہو اس کے لیے انتقال ممکن اور جائز ہے "وَلاَ كَانَ فِي مَكَانٍ فَيَجُوزَ عَلَيْهِ الاِنْتِقَالُ"، جو شے منتقل ہوسکتی ہو اس کے حالاتِ سابقہ قصہ پارینہ میں تبدیل ہوتے ہیں، ایسی شے ممکن الوجود ہے واجب الوجود نہیں ہے۔ جو حرکت کا،کہیں جانے کایا پہلی جگہ ترک کرنے کا محتاج ہو وہ ممکن الوجودہے جبکہ ذاتِ واجب سب پہ احاطہ رکھتا ہے اور ہر جگہ حاضر ہے ، کہیں جانے یا ترک کرنے کا محتاج ہی نہیں ہے۔
التصاق لازم آنا
مشہور فلسفی قطب الدین شیرازی التصاق کی یوں تعریف فرماتے ہیں کہ: دو اشیا ایسے ہوں کہ ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہو اس طرح کہ دوسرا منتقل ہوجائے تو پہلا بھی منتقل ہوجانا لازم آئے تو اسے التصاق(adhesion) کہا جاتا ہے۔ التصاق سے یہ لازم آتا ہے کہ ایک شےنے دوسرے پہ تکیہ کیا ہوا ہے جب دوسرا ہلے تو پہلا بھی ہل سکتا ہے، دوسرا منتقل ہوجائے تو پہلا بھی منتقل ہوجاسکتا ہے، بالفعل مکان نہ ہلے تب بھی عقلی لحاظ سے ہلنا اورمنتقل ہوجانا جائز ہے۔ اگرمُلتصِق و مُلتصَق کے لیے حالات فرض کرلیے جائیں تو یوں ہوگا کہ خالق اور مخلوق ایک ساتھ ہوں یا خالق اپنے ہی مخلوق پر ہویا ضمن میں ہو یا طرف میں ہو، ہر صورت میں التصاق لازم آئے گا۔ پس اگر اللہ کسی مکان میں ہو تو خالق و مخلوق کا التصاق لازم آئے گا پھر مکان ہلنے سے خد اکا ہلنا لازم آئے گا اور مکان کے گرنے سے مکان دار کا گرنا لازم آئے گاجو کہ ممکن الوجود کی صفت ہے یا مادی اشیا کی صفت ہے جب کہ جو ماورائے مادہ ہے بلکہ مادہ نے اپنا وجودِ غیر استقلالی کو اس وجودِ مستقل سے لیا ہے تو وہ مادی صفات سے برتر ہے "لَمْ يَقْرُبْ مِنَ الْأَشْيَاءِ بِالْتِصَاقٍ"۔
اگر ہم فزکس کی نظر سے بھی دیکھیں تو آئن سٹائن کے نظریۂ اضافت کی رو سے زمان مکان کا حصہ ہے، پس اس نظریے کی بنا پہ بھی ہم واجب الوجود کے لیے مکان فرض کرلیں تو واجب الوجود اور ممکن الوجود کے درمیان تقارنِ زمانی (contemporaneity)یا تعاقب (successive)لازم آئے گا۔ تقارن تب ہوسکتاہے جب دو موجودات زمانی ہوں ذاتِ واجب غیر زمانی ہے جبکہ مکان زمانی ہے، غیر زمانی اور زمانی میں تقارن محال ہے، مثلا ایک مجرد تام ہو دوسرا زمانی ہو یہ تقارن محال ہےوجود مجرد اور وجود مادہ کے درمیان تقارن نہیں ہوسکتا ہے بلکہ مجرد (immaterial)مکان پہ احاطۂ وجودی رکھتا ہےلیکن التصاق، تقارن، تعاقب اور ملا ہوا نہیں ہے "قَرِيبٌ مِنَ الْأَشْيَاءِ غَيْرُ مُلَامِسٍ"۔ وہ خالق مکان ہے اس کے لیے مکان نہیں ہے "إنّ اللّٰه جلّ وعزّ أيَّن الأَيْنَ فلا أين له” نہ ہی التصاق و تقارن ہے وہ ہر جگہ ہے نہ کہ مماس رکھتاہے نہ کسی سے مجاورت(withness)”وهو في كلّ مكان بغيرمماسّة ولا مُجاوَرة"۔
مکان دار کی رؤیت ممکن ہونا
اگر اسے مکان دار فرض کرلیا جائے تو وہ لازما وجود مُمتَد(extensive) رکھتا ہے اور وجود مُمتَد بالفعل نظر نہ بھی آئے تب بھی نظر آنا عقلی لحاظ سے ممکن ہے۔ انسانی آنکھ نے ایٹم سے بھی نچلے درجے کے زرات کو دیکھا ہے شاید لاکھوں سالوں سے انسان دنیا میں رہ رہا ہےکبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کوانٹم زرات کا مشاہدہ بھی ممکن ہوگا لیکن تب بھی عقلا محال نہ تھا۔ پس نہ وہ ایٹم ہے نہ ہی کوانٹم زرہ ، نہ ہی مکانی ہے کہ نظر آنا عقلا ممکن ہو، آنکھ کی بصارت چاہے جتنی بھی گہری ہو، آنکھ پر جیمز ویب کی عینک بھی رکھی جائے تب بھی اس میں ہمت نہیں ہے کہ اس کے نور تک رسائی حاصل کرے کیونکہ مادی آنکھ کی پرواز مادہ اور اعراض تک ہے بسیطِ محض پہ نہیں ہے۔ "وَلَا تُحِيطُ بِهِ الْأَبْصَارُ وَ الْقُلُوبُ” "لاَ تَسْتَلِمُهُ الْمَشَاعِرُ” حواس اسے درک کرنے سے قاصر ہیں،حواس کی پہنچ مخلوق تک ہے جسے خلق کیا گیا ہے "أَحَقُّ وَ أَبْيَنُ مِمَّا تَرَى الْعُيُونُ” وہ زیادہ ثابت تر اور واضح تر ہے کہ آنکھیں اسے دیکھیں، "لَمْ يَنْتَهِ إِلَيْكَ نَظَرٌ وَ لَمْ يُدْرِكْكَ بَصَرٌ"، نظر اس تک منتہی نہیں ہوتا اور نہ ہی بصر اسے درک کرسکتا ہے "قَصُرَتْ أَبْصَارُنَا عَنْهُ"۔
risalaat.com