Table of Contents
شعبۂ ایمان و عقل کے صدر، علامہ انور علی نجفی کا روم اٹلی میں گفتگو
صدرِ شعبۂ ایمان و عقل جامعۃ الکوثر اسلام آباد، جناب علامہ انور علی نجفی دام ظلہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ الحادی اور سکیولر نظریات کے پھیلاؤ کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لیے جامع اور منظم حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار امن کے قیام اور بین المذاہب مکالمے کے فروغ کے لیے ایسے اقدامات ضروری ہیں جو نہ صرف الحادی رجحانات کا مقابلہ کریں بلکہ مذہبی و اخلاقی اقدار کو بھی مضبوط بنائیں۔ علامہ نجفی کا فرمانا تھا کہ ایک مربوط اور باہمی تعاون پر مبنی اپروچ سے عالمی سطح پر امن و ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکتا ہے، اور اس کے لیے مؤثر اقدامات اپنانا ناگزیر ہے۔
پائدار امن الہی مذہب کی درست تشریح میں ممکن
پائیدار امن کی تلاش ہمیشہ سے انسانیت کا بنیادی مقصد رہی ہے، لیکن تاریخ یہ ظاہر کرتی ہے کہ حقیقی امن صرف الہی مذہب کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ الحاد اور سیکولر نظریات کے برعکس، جن کے پاس عالمگیر اخلاقی اصول موجود نہیں، الہی دین محبت، عدالت، احتساب، اتحاد، احترام، اور امید پر زور دے کر امن کا ایک جامع فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ الہی اصولوں پر مبنی یہ اَقدار معاشرتی ہم آہنگی کو یقینی بناتے ہیں اور ایک منصفانہ معاشرہ قائم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔الحاد، جو موضوعی اخلاقیات پر انحصار کرتا ہے، ایک مستقل اخلاقی ڈھانچہ فراہم کرنے کی ناکام کوشش میں ہے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ مذہبی تعلیمات کو غیر معقول اور انتہا پسندانہ تشریحات سے پاک کر کے، عقلی اور انسان دوست اصولوں پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔ بین المذاہب اور درون مذہبی مکالمے کو مضبوط بنانا، باہمی سمجھ بوجھ کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔ علم و تحقیق پر مبنی مذہبی تعلیمات اور وحدانیت کے حوالے سے یکجہتی کی حمایت سے سیکولر نظریات کا مقابلہ کیا جا سکے گا اور جدید معاشروں میں مذہبی یکجہتی کو مضبوط کیا جا سکے گا۔
محسن ملتؒ کی الحاد کے بارے میں دردمندانہ گونج عالمی سطح پر
محسن ملتؒ جدید الحاد کے پھیلاو کے بارے میں شدید فکرمند تھےاور اس کے لیے مظبوط علمی مانع ایجاد کرنے پر زور دیتے تھے اور مختلف مواقع پراہل حل و عقد کے سامنے اس دردمندی کا اظہار کیا کرتے تھے، اپنی عمرکے آخری ایام میں ‘شعبۂ ایمان وعقل’ قائم کرکے اس دار فانی کو وداع فرماگئے۔ آج اسی دردمندانہ آواز کی گونج صدرِ شعبہ نے ‘روم’ میں تشریف لائے ہوئے مختلف ممالک کے شیعہ علما اور مسیحی علما تک پہنچائی اور جدید سیاسی الحاد کو مؤثر طریقے سے روکنے کے لیے مل کر اقدام کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ؛
الحادی اور سکیولر نظریات کے اثرات کا مؤثر مقابلہ کرنے کے لیے، مذہبی علما کو ایسے اسٹریٹیجک کام کرنا ضروری ہے جو فکری اور سماجی دونوں مسائل کا حل ہو۔ ایتھزم کے بنیادی اسباب کی نشاندہی کرنے سے مؤثر جواب دے پائیں گے۔غیر منطقی، انتہا پسندانہ یا تفرقہ انگیز دینی تشریحات کو ختم کر کے مذہبی مکالمے کی اصلاح، اعتماد کی بحالی میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ سیکیولرزم کے خلاف ایک متحدہ رویہ، بین المذاہب تعاون اور جدید میڈیا کی شمولیت کے ذریعے، مذہبی نظریات کو مؤثر انداز میں عام کیا جا سکتا ہے۔ وحدانیت کے لیے مشترکہ عزم الحادی نظریات کا مقابلہ کرنے میں دینی اتحاد کو یقینی بناتا ہے۔ مزید برآں، غیر منطقی مذہبی تشریحات کی اصلاح ایمان کی غلط نمائندگی سے بچاتی ہے۔ عالمی سطح پر ایسے علما کا ایک نیٹ ورک قائم کرنا جو الحادی رجحانات کی تحقیق اور مذہبی برادریوں کے تحفظ کے لیے وقف ہوں، ایمان کے پائیدار اور آگاہانہ دفاع کے لیے نہایت ضروری ہے۔ ان اقدامات پر عملدرآمد کے ذریعے مذہبی گفتگو کو نئی جان دی جا سکتی ہے، جس سے امن، فکری ترقی اور معاصر معاشرے میں مذہبی سالمیت کے تحفظ کو فروغ ملے گا۔