Table of Contents
سائنٹزم اور مابعد الطبیعیاتی حقیقت کا انکار
تحریر: غلام رسول وَلایتی، ریسرچ ایسوسی ایٹ DFNR
مادی وجودیات
مادی وجودیات (Ontology) یا ہستی کا وہ مطالعہ، جو مادے کے علاوہ کسی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا، درحقیقت مغربی سائنٹزم اور سائنسی مادہ پرستی کے غلبے کے بعد نمایاں ہوا۔ اس نظریے کے حاملین کا کہنا ہے کہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے، وہ صرف مادی سطح پر ہی قابلِ فہم اور قابلِ تحقیق ہے، اور کوئی غیر مادی یا مجرد حقیقت (Abstract Reality) سرے سے موجود ہی نہیں۔
جب سائنس اور ٹیکنالوجی نے حیرت انگیز ترقی کی، تو کچھ لوگوں نے اعلان کیا کہ فلسفہ مر چکا ہے، اور اب سائنس فلسفے کی جگہ لے چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کائنات کو سمجھنے کے لیے صرف تجرباتی اور سائنسی طریقے ہی کافی ہیں، اور فلسفیانہ اور مابعد الطبیعیاتی بحثیں بے معنی ہیں۔
تجربیت پسند (Empiricists) اور سائنٹزم کے حامیوں کے مطابق،
حقیقت صرف وہی ہے جسے تجربے اور حسی ذرائع سے ثابت کیا جا سکے۔
روح، الہام، وحی اور مابعد الطبیعیاتی حقائق محض خیالات ہیں، جن کی کوئی تجرباتی بنیاد نہیں۔
کائنات ایک مادی حقیقت ہے، اور اس کا کوئی غیبی پہلو نہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی سائنس فلسفے کی جگہ لے سکتی ہے؟
کیا ہر حقیقت تجربے میں آ سکتی ہے؟
کیا انسانی عقل کی رسائی صرف مادی حقائق تک محدود ہے؟
کیا سائنس کے پاس ہر چیز کی وضاحت موجود ہے، یا یہ خود کچھ مابعد الطبیعیاتی اصولوں پر کھڑی ہے؟
ہم اس بحث کے مختلف اقساط میں سائنٹزم اور سائنسی مادہ پرستی اور سائنس جیسے معتبر علم سے سوء استفادہ شدہ الحادی نظریات کا تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کریں گے، تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ کیا واقعی صرف مادی حقائق موجود ہیں یا مجرد حقیقت بھی موجود ہے؟ کیا صرف تجربی کائنات شناسی ممکن ہے، یا پھر حقیقت کی کچھ جہات سائنس کی پہنچ سے باہر بھی ہیں؟
ہستی کے بارے میں غور
وجود یا ہستی ایک ایسی حقیقت ہے، جس کی کھوج میں انسانی ذہن صدیوں سے اس کی حقیقت کو سمجھنے کے لیےغور و فکر میں مشغول ہے۔ فلسفیوں، سائنسدانوں، شاعروں اور صوفیوں سبھی نے اپنے اپنے زاوئے نظر سے اس ہستی کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اب بھی جستجو کا سفر رکا نہیں ہے۔کائنات اور اس کی ہستی کی جستجو دو طرح سے ہوئی، ایک یہ کہ کلی طور پہ ہستی کو خود ہستی کی حیثيت سےغور و فکر کرنا اور دوسرا زاویہ یہ کہ ہستی کے موجودات کے بارے میں بحث اور پہ ہستی کا مطالعہ کیا۔
ہستی کیا ہے؟ یہ محدود ہے یا لا محدود ؟ کیا یہ ازل سے ہے یا فانی ہے؟ اسے کسی نے بنایا ہے یا خود سے بنی ہے؟ ہستی کے اجزا کے درمیان ربط کیا ہے؟ اس کا اختتام کیسے ہوگا؟ اختتام پر کیا ہوگا؟ جو کائنات ہمیں نظر آرہی ہے کیا وہ حقیقت میں موجود ہے یا ہم خیالوں میں جی رہے ہیں؟آیا زندگی کا کوئی مقصد بھی ہے یا نہیں؟ جیسے سوالات نے انسانی ذہن کو صدیوں سے مشغول کر رکھا ہے۔
کئی زاویوں سے غور و فکر
جب سے انسان نے ہوش سنبھالا ہے اور اپنی فطرت کے تحت جستجو شروع کی ہے، تب سے انسان نے مختلف زاویوں سے مشاہدہ کرنا شروع کیا ہے اور اس مشاہدے کے نتیجے میں کئی قسم کے مکاتب فکر وجود میں آئے ہیں۔ انسان نے مختلف جہات سے کائنات پر غور کیا تو مختلف قسم کے نتائج سامنے آنے لگے۔ مثلا کچھ لوگوں نے حقیقت کو وہم اور خیال قرار دے کراسے سرے سے ہی مشکوک قرار دیا تو کچھ نے پہلے والے مکتب فکر کو رد کرتے یوئے کہا کہ ميں شک کر رہا ہو ں پس لازمی طور پر شک کرنے والا موجود بھی حقیقی طور پر موجود ہونا چاہیے، پس ضرور "میں” موجود ہوں اور کائنات بھی حقیقت میں موجود ہے[1]۔ کسی نے کائنات کی شناخت کی نسبت اپنے آپ کو اس لیے آسودہ حال بنایا کہ ہم کائنات کو سمجھ ہی نہیں سکتے ہیں تو کوئی اس لیے پریشان حال ہوا کہ کائناتی حقائق(truths) کی پہچان اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ اب مزید سمجھنے اور کھوجنے کے لیے کوئی چیز بچا ہی نہیں ہے[2]۔ کسی نے کہا کہ ہم واقعیت کی شناخت حاصل کر ہی نہیں سکتے ہیں تو کسی نے فٹ سے فتوی دیا تھا کہ ہم مزید بیس سال بعد واقعیت کی تہہ تک پہنچ سکیں گے اور سمجھنے کے لیے مزید کوئی چیز نہیں بچےگی[3]۔ کسی نے کائنات کی تخلیق کا ذمے دار زیریں اجزا یعنی ایٹم قرار دیا[4] تو کسی نے پانی، آگ اور ہوا کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ کسی نے کہا کہ کائنات کوانٹم فلیکچوایشنز اور قوانین کی وجہ سےعدم سے خلق ہوسکتی ہے[5]۔ کسی نے کائنات کی عدم اور نیستی سے تخلیق کو ممکن قرار دیا[6]، تو کسی نے کائنات کو ابدی و ازلی قرار دیتے ہوئے کسی علت کے عدم ضرورت پہ زور دیا[7]۔ کسے نےپتھر، درخت چاند اور سورج ميں بھی روح تلاش کی تو کسی نے مکمل طور پر روح کا ہی انکار کیا، کسی نے چوہا، پتھر، لکڑی، گائے اور بندر کو ہی الہ قرار دے کر پوجا شروع کی تو کسی نے اِلہ کا ہی انکار کر بیٹھا۔
کائناتی غور و فکر کی ایک تمثیل
کہتے ہیں جب پہلی بار ہندوستان سے ایک ہاتھی ایران لایا گیا، تو لوگ فرطِ اشتیاق سے اسے دیکھنے کے لیےامڈ آئے، ہاتھی کسی تاریک کمرے میں تھا۔ اس ہاتھی کو دیکھنے کے لیے ہر کوئی بے چین تھا۔ لوگ تاریک کمرے سے گزرتے گئے، ہر کوئی آتا اور اپنے ہاتھ آگے بڑھا کر ہاتھی کو محسوس کرنے کی کوشش کرتا۔ جب کسی کا ہاتھ دم سے ٹکرا گیا تو اسے لگا کہ ہاتھی ایک مظبوط رسی کی مانند ہے، کسی کا ہاتھ ٹانگ کو چھوا توباہر آکر کہا کہ ہاتھی ایک مظبوط ستون کی مانند ہے اگر ہاتھ کان پہ جالگا تو یقین کر بیٹھا کہ ہاتھی تو پنکھے کی مانند ہے ، کسی کا ہاتھ سونڈ پہ لگا تو باہر آکر کہتا کہ ہاتھی پرنالے کی مانند ہے، کسی کا ہاتھ ہاتھی کی پشت پہ لگا تو باہر آکر کہتا کہ ہاتھی ایک تخت کی مانند ہے ۔ غرض یہ کہ ہر شخص نے ہاتھی کا ایک جز کو دیکھا اور یہی سمجھا کہ میں نے مکمل حقیقت دریافت کی ہے جبکہ واقعیت اس سے کئی گنا وسیع ہوسکتی تھی۔
اس تمثیل کی مانند ہی بشر نے کائنات اور اس کے اجزا کی طرف مختلف زاویوں اور جہات سے نگاہ کرتا ہے۔ کئی لوگوں موجودات پر غور و فکر کرتے ہیں تو کئی لوگ پوری ہستی کو بطورہستی اور کُل بھی موضوع بحث بناتے ہیں۔ کوئی اپنی سہولت کی حیثیت سے نگاہ کرتا ہے کہ فلاں چیز ہماری زندگی میں کیا کام آسکتی ہے اور ہماری آسائش کا کس طرح حصہ بن سکتی ہے، تو کوئی شاعرانہ نگاہ سےشبنم ، نرگس ، گلاب اور سرو چمن سے اپنا ایک احساس اخذ کرلیتا ہے۔ کوئی ان اجزا کے باہمی تعلق اور ربط کو دیکھتا ہے۔ پس کائنات کی شناخت کے لیےکے لیے الگ الگ زاویۂ نگاہ ہیں اور ان زاویوں کا الگ الگ نام بھی رکھے گئے۔ جیسا کہ مادہ، توانائی اور مکان و زمان اور ان کے باہمی ربط کی جستجو کرنے والے علم کو طبیعیات کہتےہیں۔ کائناتی موجودات کی عنصری ترکیب اور عناصر کے خواص و صفات سے بحث کرنے کو علمِ کیمیا کہتے ہیں۔ زندہ اجسام کے جسمانی خواص اور باہمی ربط سے بحث کرنے والے علم کو حیاتیات کہتے ہیں۔ نباتات کی خصوصیات اور اس کے متعلقات سے بحث کرنے والے علم کو علمِ نباتات کہتے ہیں۔ اسی طرح عدد اور اس کے متعلقات سے بحث کرنے والا علم کوعلمِ حساب کہتے ہیں۔ انسانی معاشرت اور اس کے ارتقا سے بحث کرنے والے علم کو عمرانیات اور انسانی رویوں اور ذہن کے عوارض اور خصوصیات سے بحث کرنے والے علم کو نفسیات کہتے ہیں۔ لیکن اگر عمومی اور کُلی حیثیت سے بھی کائنات کےبارے میں تعقل کرلیا جائے تو اس فلسفہ اور کلام کہتے ہیں۔ غرض یہ کہ انسان نے جب سے اس کائنات میں قدم رکھا ہے تب سے وہ اپنے سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ کائنات پر غور و فکر میں کوئی جزئی شناخت حاصل کرنے میں لگا ہواہے جیسا کہ ہاتھی کی مثال گزر گئی، تو کوئی پوری ہستی اور وجود کو من حیث وجود پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پس یہاں سے معلوم ہوتا ہے کائنات یا ہستی کی طرف نگاہ دو طرح سے ممکن ہے، ایک کلی نگاہ ہے جو کہ فلسفی نگاہ ہے جس میں ہستی اور وجود کو من حیث وجود (Existence qua existence) بحث کا موضوع قرار دیا جاتا ہے اور ایک نگاہ ہستی کے اجزا اور موجودات (components of existence and beings)کی طرف ہے، جہاں کائنات کے مادی اجزا اور موجودات سے بحث ہوتی ہے، یہ زیادہ تر حسی و تجربی علوم کا موضوع ہے۔
ہستی کا مطالعہ اور انسانی زندگی پہ اس کا اثر
ہستی اور وجود کے مطالعے کا انسانی نگاہ، فکر اور عمل پرگہرا اثر پڑتا ہے، اگر کوئی مادے کو حقیقت کا سرچشمہ سمجھتا ہے تو اس کی زندگی کا فلسفہ الگ ہوگا، اور اگر کوئی خدائے واحد تک پہنچتا ہے،تو اس کی زندگی کا مقصد اور رویہ یکسر مختلف ہونے کا امکان ہے۔ کسی کا فلسفہ زندگی یہ ہےکہ یہی مادی کائنات ہی سب کچھ ہے، اس کے بعد کوئی آخرت، حساب کتاب اور عدل و انصاف نہیں ہوگا۔ ان کے نزدیک زندگی بس اسی دنیا تک ہی محدود ہے،کوئی میزان اور یوم الحساب نہیں ہے، ہاں اچھائی کا تصور انسانی ہے لیکن انسانی نفسیات میں غصہ، شہوت، اور اس طرح کے شدید رجحانات موجود ہیں ان کو کنٹرول کس عامل کے ذریعے کریں گے یا کنٹرول ہی کیوں لازمی ہے یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب نہیں ہے۔ لیکن جو خدا پہ ایمان رکھتا ہے اس کے نزدیک انسانی اخلاقیات کے ساتھ ساتھ ، ثواب، عقاب اور الہی رضا جیسے عوامل بھی موجود ہونے کی وجہ سے ایک امتیازی حیثيت رکھتا ہے۔ چہ بسا اللہ کی رضا کے لیے کسی دشمن سے اور مخالف سے نیک سلوک کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتا ہےتو ان کے خیال میں ان کے کسی بھی عمل کا باعث کیا ہوگا یہ سوال ہے ملحدین کے اس جملے سے سمجھا جاسکتا ہے کہ؛ (‘There’s probably no god. Now stop worrying and enjoy your life.’) پس آپ آزادہیں، حساب کتاب نہیں ہے، مزے اڑائیں جیسا بھی ہو، جس طرح من چاہے وہی کریں۔[8]فرد کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس طرح رہنا چاہے، جوکھانا چاہے،جس کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہے، یہاں کسی کوروکنا بلا جواز ہے،یعنی اس کے نظرئے ميں کوئی روک اور روکاوٹ نہیں ہے کسی بھی چیز کے لیے۔
لیکن جو زندگی کے بعد معاد اور حساب و کتاب پر یقین رکھتا ہے تو اس کے نزدیک ہر عمل کی جواب دہی ہے،اس کے اعمال نوٹ کیے جارہے ہیں، ذرے ذرے کا حساب ہوگا،کسی بھی کام کے کرنے سے پہلے اسے دیکھنا پڑے گا کہ یہ کام میری آئیڈیالوجی میں درست ہے یا نہیں ہے۔
الہی وجودیات کا امتیاز
عام انسانی ضمیر کے علاوہ اس کے اندر مزید ایک قوت بھی موجود ہے ـجو اس کی آئیڈیالوجی ہےـ جو ایک اضافی قوت کے طور پر کام کرتی ہے اور یہ انسان عام بشر سے ایک امتیازی حیثیت رکھتاہے۔ اس کی زندگی با معنی ہوتی ہے اور ہر عمل میں ایک گہرا مفہوم اور معنی دیکھتاہے، ہر مشکل کو صبر سے سہہ کر اس میں بھی ایک معنی تلاش کرتاہے اورانصاف کے کسی نہ کسی دن ملنے کی امید پر جیتاہے۔
اسی امید کے باعث اس کے لیے خودکشی بے معنی ہوجاتی ہے کیونکہ اگر آج نہیں مل رہا ہے تو کل کےملنے کی امید ضرور باقی رہتی ہے۔ وہ زندگی کی پیچیدہ راہوں میں دوسرے انسانوں سے زیادہ اور بہتر انداز ميں اور ایک خاص معنویت کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔ جبکہ عام بشریت اپنی روز مرہ کی مشغولیات،قدرتی آفات، احساس محرومی، بیکاری، دماغی تھکن، وسائل کی کمی، صحت کے مسائل، سوشل آیزولیشن، ورچوئل دنیا اور میٹاورس کی زندگی کی وجہ سے حقیقی دنیا سے الگ تھلگ ہونے کے باعث احساس تنہائی، شدید ذہنی تناو اور زندگی کے بوجھ تلے تھکی ہاری ہوتی ہے، یہ انسان سفر ہو یا حضر، مشکل ہو یا آسائش، محرومی ہو یا تنہائی، صحتمند ہو یا مریض، تھکا ہوا ہو یا چست اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ کسی معشوق سے بہت قیمتی ہدایا اور انعام پانے کی امید میں اور خیالِ یار کی آسودگی میں مستانہ وار زندگی کے لمحات گزار دیتا ہے، جو اس کے وجود کو مزید معنی بخشتا ہے۔۔۔ جاری ہے
💡 ہم ہر فکر، ہر نقطہ نظر، اور ہر تنقید کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کیونکہ حقیقت کا سفر صرف سوالات اٹھانے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
[1] رینے ڈيکارٹ نے کہا تھا کہ("I think, therefore I am”) میں سوچتا ہوں پس میں ہوں۔
[2] نیوٹن کے بعد کچھ نے کہا کہ اب مزید کھوجنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔
[3] ٢٠٠٢ میں سٹیفن ہاکنگ کا اعلان کہ اب کے بیس سال بعد ہم حتمی حقیقت تک پہنچ سکیں گے۔
[4] ڈیموکریٹس کا ایٹمی نظریہ کہ ان کے مطابق ایٹم ناقابل تقسیم ہے پس اسی سے کائنات وجود میں آئی ہے۔
[5] سٹیفن ہاکنگ نے کہا کہ کائنات قوانین اور کوانٹم فلیکچوایشنز کی وجہ سے خلق ہوسکتی ہے۔
[6] لاورنس کراوس نے کہا کہ کائنات عدم سے خلق ہوسکتی ہے۔
[7] برٹرنڈ رسل اس بات کا قائل تھا کہ کائنات کو کسی علت کی ضروت نہیں ہے، بس خود سے ہے۔
[8] ٢٠٠٩ میں ملحدین نے بس کمپین چلائی کہ کوئی خدا نہیں ہے لہذا من مانی کریں۔