Table of Contents
ترجمہ: غلام رسول وَلایتی، ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈپارٹمنٹ آف فیتھ اینڈ ریزن
استادحمیدرضا شاکرین، اسسٹنٹ پروفیسر ڈپارٹمنٹ آف اسلامک کلچر اینڈ تھاٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ
مقدمہ
جدید الحاد، جو جدید سائنسی تجربیت، منطقی اثناتیت اور طبیعت پسندی پر مبنی ہے، خدا کی عدم موجودگی کا استدلال پیش کرتا ہے۔ تاہم، اس تحریک کی دلیلیں اکثر ان بنیادی میٹافزیکل مفروضات پر مبنی ہوتی ہیں جنہیں خود سائنسی میتھڈ ثابت نہیں کرسکتا۔ اس کے برعکس، اسلامی فلسفہ بدولت عقل اور وحی کے امتزاج سے ایک جامع فکری نظام فراہم کرتا ہے۔ یہ نظام تجربی شواہد کی حدود کو تسلیم تے ہوئے تجربیت اور طبیعت پسندانہ میٹافزیکل بنیادوں کی بیخ کنی کرتا ہے۔ یوں اسلامی فلسفہ، ایک جامع اور ہم آہنگ نظریہ پیش کرتے ہوئے، الحاد جدید کے محدود اور یک جانہ استدلالات کا مؤثر جواب دیتا ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ تجرباتی علوم اپنی ذات میں میٹافزیکل بنیادوں پر منحصر ہے۔ ذیل میں استادشاکرین کے انٹرویو کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے جو کہ فلسفۂ سائنس، اسلامی فلسفہ اور علم کلام سے شغف رکھنے والوں کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ پہلی قسط ہے جو پیش خدمت ہے:
سوال: ہم جس موضوع پر آپ سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں، وہ الحاد جدید کے مقابلے میں اسلامی فلسفے کی صلاحیتوں کی شناخت سے متعلق ہے۔ بطورِ تمہید کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم الحاد اور خدا انکاری کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ انسانی تاریخ جتنا پرانا موضوع معلوم ہوتا ہے۔ البتہ، اس تاریخی سفر میں ہم نے الحاد کے تصور میں ایک بنیادی تبدیلی کا مشاہدہ کیا ہے، کیونکہ جدید دور میں الحاد کی بہت سی خصوصیات خود مفکرین کے مطابق پہلے کے ادوار سے مختلف ہو چکی ہیں۔ اس نکتے کو مدنظر رکھتے ہوئے، آپ سے درخواست ہے کہ اس بارے میں مزید وضاحت فرمائیں۔
جدید الحاد اور تاریخی الحاد میں فرق
جواب:جی ہاں، جیسا کہ آپ نے فرمایا، الحاد کا وجود قدیم زمانے سے رہا ہے، لیکن یہ ہمیشہ نادر اور محدود رہا ہے، یہاں تک کہ اس کا آج کے دور سے کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں مفکرین، دانشور اور ملحدین عام طور پر اپنے نظریات کو کھل کر ظاہر کرنے کا رجحان نہیں رکھتے تھے، لیکن آج کا الحاد بالکل مختلف انداز میں سامنے آیا ہے۔ وہ کھل کر اپنے خیالات کا پرچار کرتے ہیں، الحاد کی تبلیغ کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ملحد ہونے پر فخر کرنے کی بات کرتے ہیں۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ جدید دور کے ملحدین علمی و سائنسی بنیادوں پر اپنے نظریات کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ، یہ بات ذہن نشین رہے کہ آج بھی ایک بڑی تعداد میں سائنسدان موجود ہیں جو خدا پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے عقائد کی توثیق کے لیے جدید سائنسی علوم سے استفادہ کرتے ہیں۔(۱) الحاد کے جدید رجحانات بھی خود کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی پہلو سے، الحاد کو عمومی طور پر دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے: فلسفیانہ الحاد اور سائنسی الحاد۔
دیگر خصوصیات کا بھی تذکرہ کیا جا سکتا ہے، مثلاً یہ کہ تاریخِ بشر میں الحاد زیادہ تر ایک سلبی (منفی) حیثیت رکھتا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے وجود کے اثبات کے دلائل کو ملحدین اپنے لیے ناکافی سمجھتے تھے اور قائل نہیں ہوتے تھے، لہٰذا وہ عمومی طور پر خدا کے بارے میں شک و تردید کا رویہ اپناتے تھے۔ اب یہ شک الحاد کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں، یہ ایک تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔
آج جس چیز کو "الحاد جدید” کہا جاتا ہے(۲)، اس کی ایک اور نمایاں خصوصیت، جو کہ تمام ملحدین میں نہیں بلکہ ایک مخصوص گروہ میں پائی جاتی ہے، یہ ہے کہ یہ نہایت شدت کے ساتھ دین مخالف ہے۔ درحقیقت، یہ گروہ خود جدید ملحدین کے درمیان بھی اقلیت میں ہے، کیونکہ بہت سے ملحدین ایسے بھی ہیں جو دین کو انسانی زندگی کے لیے مفید اور کارآمد سمجھتے ہیں۔ تاہم، یہ دین مخالف گروہ انتہائی شور و غل مچانے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ اگرچہ معرفتی لحاظ سے اس کے پاس کوئی نیا استدلال یا بنیادی تبدیلی موجود نہیں ہے، لیکن اس کا طریقۂ کار پچھلے الحادی رجحانات سے مختلف ہے۔
سوال:
الحاد جدید میں علم کو بنیاد بنانے کی جو نمایاں خصوصیت بیان کی جاتی ہے، اس سے کیا مراد ہے؟ کیا فلسفیانہ مباحث کے بغیر محض علمی بنیادوں پر الحاد ممکن ہے؟
کیا سائنسی الحاد ممکن ہے؟
جواب:دیکھیں، "سائنسی بنیاد” کا دعویٰ درحقیقت ایک نعرہ اور محض ایک دعویٰ ہے۔ الحاد جدید کوشش کرتا ہے کہ اپنے الحادی نظریات کے حق میں "سائنس” کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرے اور اپنے آپ کو سائنسی اصولوں پر قائم دکھائے۔ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا الحاد مکمل طور پر سائنسی بنیادوں پر استوار ہے، لیکن محض یہ دعویٰ کرنا کافی نہیں ہے کہ الحاد کو مکمل طور پر سائنس پر مبنی قرار دیا جا سکے۔
وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ الحاد سائنسی ہے، لیکن درحقیقت وہ ماورائے طبیعات (میٹافزکس) اور ماورائے سائنس مفروضات پر انحصار کرتے ہیں۔ البتہ، ممکن ہے کہ وہ خود اس حقیقت سے غافل ہوں یا جان بوجھ کر اسے عام لوگوں کے سامنے بیان نہ کریں۔ جب ہم الحاد کو "سائنسی بنیاد پر مبنی” کہتے ہیں تو ہمیں اس کے حقیقی سائنسی معیار کو پرکھنا ہوگا کہ آیا یہ واقعی مکمل طور پر سائنس پر مبنی ہے یا محض ایک سائنسی لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔
یہ (ملحد) لوگ سائنس کے لیے جو مقام و حیثیت تسلیم کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ سائنس ہی واحد علمیاتی نظام ہے۔ ان کے مطابق، علم حاصل کرنے کا واحد طریقہ بھی تجربہ ہی ہے۔ حالانکہ جب یہ لوگ ” سائنس ” کی بات کرتے ہیں، تو اس کے ساتھ دیگر مفروضات کو بھی شامل رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر، یہ لوگ بنیادی طور پر "نیچرلزم” (طبیعت پسندی) کے قائل ہوتے ہیں اور اپنے اس طبیعت پسندی کے رجحان کو سائنس سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ سائنس کے لیے بھی ایک نیچرلزم پر مبنی بنیاد تسلیم کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خود سائنس ایک مخصوص مابعد الطبیعیاتی (metaphysical) بنیاد پر قائم ہے۔ یہ تصور غلط ہے کہ سائنس مکمل طور پر خودمختار اور آزاد ہے۔
سائنس کے کچھ بنیادی اصول (axioms) اور (Assumptions) ہوتی ہیں جو سائنسی اور تجربی دائرے سے باہر ہیں۔ اس لیے، سائنس کے پیچھے ایک میٹافزیکل بنیاد، ایک فلسفہ، اور ایک علمیات (epistemology) ہوتی ہے، جو خود سائنس نہیں ہوتی بلکہ سائنس ان سے استفادہ کرتا ہے۔ اس بیان کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ "سائنسی الحاد” درحقیقت ایک مابعد الطبیعیاتی نظریہ ہے، کیونکہ اس کے لیے دو بنیادی اصول تسلیم کیے جاتے ہیں:
2 تبصرے
شکریہ
جزاک اللہ، سلامتی