131
Table of Contents
ڈاکٹر علی حسین عارف، ڈائریکٹر ڈپارٹمنٹ آف فیتھ اینڈ ریزن
مقدمہ
انسان فطرتاً توحید پرست ہے، اور عبادت وبندگی کو فطری امور میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ خواہشات نفسانی کا غلبہ، شیطانی قوتوں کی سازشوں، صاحبان علم سے دوری اور مفید علمی نشستوں کے فقدان کی وجہ سے نوجوان نسل الحاد ی افکار ونظریات کی طرف مائل ہورہی ہے۔ ایسے میں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ ملحدین کی طرف سے کئے جانے والے اہم سوالات ، اور الحاد کے اسباب کے بارے میں تحقیق کی جائے، تاکہ الحاد کے تباہ کن مضرات سے معاشرہ کو بچایا جاسکے۔
الحاد کی تعریف
لغت میں : الحاد عربی کا لفظ ہے اور اہل لغت نے اس کے معنی یہ بیان کیا ہے: لام، حاء اور دال جن سے یہ لفظ وجود میں آیا ہے ، استقامت سے منہ موڑنا، یا راہ راست اور حق وایمان کے راستے سے منحرف ہونے اور روگردانی کرنے کو کہا جاتا ہے، لحد کو بھی لحد اسی لیے کہا جاتا ہے چونکہ یہ قبر کی کسی ایک طرف بنایا جاتا ہے۔(۱) اسی طرح بعض علماء نے الحاد سے میاں روی کی راہ کوترک کرنا، ظلم وجور کرنا ، اور حق سے اعراض کرنا مراد لی ہے (۲)
اصطلاح میں: اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کرنا، اس میں شک کرنا یا وجود اللہ کی تکذیب کرنے کو الحاد کہا جاتا ہے۔
الحاد اور اس ہم معنیٰ تعبیرات
دین مخالف قوتوں یا ملحدین کے افکار کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے پہلے ان الفاظ سے آشنائی حاصل کریں جن کو عام طور پر معاشرہ میں کسی نا کسی طرح لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرنے اور نا کرنے کے اعتبار سے مجموعی طور پر تین قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں، مؤحد، ملحد اور ایسے افراد جو نہ ملحد ہیں اور نا ہی منکر، بلکہ یہ کہتے ہیں ہمیں اللہ کے وجود سے انکار ہے اور نا ہی عدم وجود کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ہمیں ان دونوں وجود اور عدم وجود کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے لہذا بغیر علم کے ہم کسی بھی نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس تیسری قسم پر عقیدہ رکھنے والوں کو Agnostics اور نظریہ کو Agnosticism کہا جاتا ہے۔(۳)
الحاد Atheism) )
Atheism is in fact extremely simple to define: it is -the belief that there is no God or gods (4)
یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں جس کا معتقد اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کرتا ہے، اسی طرح ہر اس عقیدے سے انکار کیا جاتا ہے جو ان کے تجربات میں نہیں آتے، یعنی وہ کسی بھی ماورائ طبیعت شئی کے وجود سے انکار کرتے ہیں اور صرف انہیں چیزوں پر یقین رکھتے ہیں جو انسانی تجربے میں آسکتی ہیں، جیسے عقیدہ آخرت، فرشتے، بھوت، لا فانی روح، اور خدا تعالیٰ وغیرہ۔ دوسرے الفاظ میں الحاد واضح طور ہر اس عقیدہ کے خلاف ہے جس میں اللہ کا وجود کو تسلیم کی جاتی ہے یا کم از کم اس کے وجود کی تردید نہیں کی جاتی۔
بعض دیگر علماء کے مطابق الحاد کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرے بلکہ الحاد اعم ہے انکار سے، یعنی وجود الٰہی کے بارے میں شک وتردید بھی الحاد میں شامل ہے۔
لا ادری (Agnosticism)
یہ بھی الحاد کی طرح ایک اور سوچ ہے اگرچہ انداز مختلف ہے لیکن نتیجے میں خاص فرق نہیں ہے، اس نظریہ کے معتقدین یہ کہتے ہیں کہ ہم نہ اللہ تعالٰی وجودکو جانتے ہیں اور نہ ہی عدم وجود کو، بالفاظ دیگر وہ ایک درمیانی حالت میں رہنا چاہتے ہیں چونکہ بقول ان کے اللہ تعالیٰ کے وجود اور عدم وجود میں سے کسی ایک پر بھی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے لہذا خاموشی اور میں نہیں جاتنا والا نظریہ اختیار کرنا ہی محفوظ طریقہ ہے۔ اس نظریہ کے قائلین میں سے معروف فلاسفر Bertrand Russell کہتا ہے کہ انسان کے لیئے ضروری نہیں ہے کہ وہ یا تو مسیحی (یعنی اللہ کے وجود کو تسلیم کرے ) یا عدم وجود الٰہی کا قائل ہوجائے بلکہ وہ ایک تیسری راہ کو اختیار کرسکتا ہے بلکہ وہ یہ نظریہ رکھے ہم اللہ کے وجود اور عدم وجود میں سے کسی کو بھی ہم تجربات سے ثابت نہیں کرتسکتے لہذا لاادری ہی بہترین عقیدہ ہے۔(۵)
۳۔ مادہ پرست یا جسم پرست Materialists or Physicalists
یہ مذکورہ بالا دو قسموں سے تھوڑا سا مختلف ہے اور اس عقیدے کے معتقدین مادہ، اور مادہ سے متعلق چیزوں کو ہی حقیقت تسلیم کرتے ہیں اور مادہ سے ماورائ چیزوں پر عقیدہ نہیں رکھتے یہ علوم کے مختلف شعبوں میں سے فزکس، کیمسٹری، بیالوجی اور اسی طرح ہر وہ شعبہ تعلیم کہ جس میں مادیات اور قابل مشاہدہ چیزوں کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے کو ہی تسلیم کرتے ہیں۔
Naturalism
یہ بھی ماورائ طبیعت امور پر اعتقاد نہیں رکھتے اور طبیعی دنیا کو ہی ہر چیز کا اصل سمجھتی ہے۔ یہ فلاسفی عقیدہ رکھتی ہے کہ روح، اور روح جیسی باقی چیزیں صرف انسانی اختراع ہیں اور اور انسانی وہم وخیال سے ہٹ کر ان کا کوئی استقلالی وجود نہیں ہے۔ اس نظریہ کے حامی اکثر افراد بالآخر الحاد سے جاملتے ہیں ۔
ضد الدین: Antitheism
اس نظریہ کے حامل لوگ اللہ، دین، اور دینداروں سے انتہائی دشمنی رکھتے ہیں اور یہ لوگ تمام تر دینی عقائد، اور نظریات کی تردید کرتے ہیں، ضد الدین افراد کا اعتقاد اور دعوی ہے اللہ پر ایمان رکھنے سے انسانی انفرادی زندگی خراب ، برباد اور بے ھدف بن جاتی ہے، لہذا بامقصد زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے انسان کسی بھی ماورائ طبیعت وجود سے انکار کرے، اسی طرح ان کا یہ عقیدہ بھی ہے یہ کائنات اپنی خلقت اور بقاء میں کسی خالق اور رب کی محتاج نہیں ہے ، جبکہ اہل دین عقیدہ رکھتے ہیں زندگی کا بامقصد بننا اللہ اور آخرت پر ایمان اور اعتقاد کے ساتھ مربوط ہے۔ اس فلسفہ کے معتقدین کا بنیادی عقیدہ دین اور ہدف زندگی میں موجود ربط سے انکار اور ان کے تعلق کی نفی ہے۔ بعض محققین کے مطابق فلسفہ شکوکیہ کی انتہا اور انجام ضد الدین ہے، کیونکہ جب کوئی بھی شخص تمام تر امور اعتقادیہ میں کسی بھی نظریہ کو مورد اعتراض اور مناقشہ قرار دیتا ہے، اور اسے وہم وخیال پر حمل کرتے ہوئے مسترد کردیتا ہے تو یہی اصالتاً دین سے لاتعلقی اور بیزاری کا اعلان ہوتا ہے۔ کیونکہ دین اعتقادات، اعمال اور اخلاق کے مجموعے کا نام ہے، ان میں سے سب سے اہم شئی اعتقادات ہیں اگر اس مرکب اور مجموع سے امور اعتقادی کو منہا کرے تو دین کی بنیاد ہی منہدم ہوجائے گی۔ (۶)
شکوکیہ Skepticism
Skepticism یہ ایک یونانی لفظ ہے، جو skepsis سے بنا ہے، اس کا لفظی معنی ہے تحقیق کرنا اور تفتیش وجستجو کرنا۔ قدیم متشکک اپنے آپ کو investigators کہتے تھے، اور وہ یہ برملا طور پر کہا کرتے تھے کہ چونکہ ہم تحقیق کررہے ہیں لہذا ہم کسی بھی نظریہ اور عقیدہ کو اپنی تحقیق کے نتیجہ آنے تک تسلیم نہیں کرتے۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب تک سابقہ نظریہ کے بطلان پر کوئی دلیل دلالت نہیں کرتی، تب تک اسے فقط شک کی بنیاد پر رد نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ نظریہ کوئی جدید نہیں ہے بلکہ قبل از حضرت مسیح علیہ السلام یہ نظریہ موجود تھا، اس نظریہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: الشك البيروني، اور الشک الاکادیمی۔ بعض مؤرخین کے مطابق پہلی قسم کی بنیاد پانچ سو سال قبل از حضرت مسیح علیہ السلام پڑی تھی، جب کہ بعض دیگر محققین کے مطابق یہ نظریہ ۲۷۲ سال قبل از مسیح وجود میں آیا اور (Pyrrho of Elis, 272-370 BC ) قدیم فلسفہ شکوکیہ کا بانی مانا جاتا ہے، لیکن چھٹی صدی عیسوی تک یہ فلسفہ اتنا مشہور نہیں تھا، جبکہ شک اکادمی اس کی نسبت زیادہ مشہور تھا۔ لیکن جب چھٹی صدی عیسوی (۱۵۶۲ – ۱۵۶۹) میں سکسٹوس (Sextus )کے لٹریچرز کو لاطینی زبان میں ترجمہ کرکے چھپوایا گیا، نتیجتاً یہ غیر معروف فلسفہ بھی بعض لوگوں کی دلچسپی کا موضوع بن گیا، یوں اس کے لٹریچرز قدیم اور جدید متشککین کے درمیان کا ذریعہ بن گئے۔ محققین کے مطابق شیشرون کے نظریات اور لٹریچرز نے بھی فلسفہ شکوکیہ کی ترویج میں اہم کردار کیا۔(۷) پیرھوس، ٹیمون، آرکسیلاس، آئنسیدموس اور سیکستٹوس کو فلسفہ شکوکیہ کے اہم اراکین میں شمار کیا جاتا ہے۔
فلسفہ شکیت/ شکوکیہ ایک ایسا فلسفہ ہے جس کی بنیاد شک ہے، لغت میں شک کے کئی معانی ذکر کئے گئے ہیں ، جیسے شک یعنی خلافُ الیقین ، بعض چیزوں کو بعض کے ساتھ خلط کرنا، اسی طرح کسی بھی قضیے کے طرفین میں وقوع اور عدم وقوع کا احتمال مساوی ہو، اور کسی ایک طرف کو دوسری طرف پر کوئی ترجیح نہ ہو تو اسے بھی شک سے تعبیر کی جاتی ہے۔ (۸) لیکن جب کلامی مبحث میں شک کے بارے بحث کی جاتی ہے، تو اس سے مراد وہ اشتباہات اور confusions)) التباسات ہیں جن کے ذریعے دین اور مذہب کے بارے میں موجود عقیدہ انسانی کو کمزرو کیا جاتا ہے، جس کے نتیجہ میں متشکک انسان کسی بھی دینی عقیدہ پر دلالت کرنے والی دلیلوں کو نا کافی سمجھتے ہیں، خصوصا اللہ تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرنے والی دلیلوں کو کافی نہیں سمجھتے۔
اس کے نتیجہ میں متشکک انسان کلی طور یا جزئی طور پر اللہ کے وجود سے انکار کرنا شروع کرتا ہے، چنانچہ سورہ ابراہیم ارشاد پروردگار ہورہا ہے۔(۹)
اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ نَبَؤُا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوۡدَ ۬ؕوَ الَّذِیۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ؕ لَا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا اللّٰہُ ؕ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَرَدُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فِیۡۤ اَفۡوَاہِہِمۡ وَ قَالُوۡۤا اِنَّا کَفَرۡنَا بِمَاۤ اُرۡسِلۡتُمۡ بِہٖ وَ اِنَّا لَفِیۡ شَکٍّ مِّمَّا تَدۡعُوۡنَنَاۤ اِلَیۡہِ مُرِیۡبٍ ۔ قَالَتۡ رُسُلُہُمۡ اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ یَدۡعُوۡکُمۡ لِیَغۡفِرَ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرَکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ؕ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ (کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں(مثلاً) نوح، عاد اور ثمود کی قوم اور جو ان کے بعد آئے جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے؟ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے منہ پر رکھ دیے اور کہنے لگے: ہم تو اس رسالت کے منکر ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو اور جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس میں ہم شبہ انگیز شک میں ہیں، ان کے رسولوں نے کہا: کیا (تمہیں) اس اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں اس لیے دعوت دیتا ہے تاکہ تمہارے گناہ بخش دے اور ایک معین مدت تک تمہیں مہلت دے، وہ کہنے لگے: تم تو ہم جیسے بشر ہو تم ہمیں ان معبودوں سے روکنا چاہتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا پوجا کرتے تھے، پس اگر کوئی کھلی دلیل ہے تو ہمارے پاس لے آؤ۔ابراہیم: ۹۔۱۰)۔ عقل سلیم رکھنے والا انسان کے ہاں ترجیح بلا مرجح نادرست عمل ہے، اسی طرح دور اور تسلسل باطل ہے ، اسی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کو برہان نظم، برہان علم، برہان تمانع فی الوجود سے ثابت کرتا ہے ، لیکن شک کرنے والے ان تمام ادلہ قطعیہ عقلیہ اور نقلیہ میں تغیر وتبدل کرتے ہوئے انہیں ناکافی قرار دیتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔
حوالہ جات:
1. معجم مقاییس اللغۃ، لابن فارس، ج ۵، ص: ۲۳۶، ابن منظور، لسان العرب(711 ه)، دار صادر، ج 3، صص 389-388۔
2. جامع القرآن فی تأویل القرآن، ج:۱۳، ص: ۲۸۳۔
3. Angelo, J. Corlett(2010), The Errors of Atheism, The Continuum International Publishing Group
4.Julian Baggini, (2003), Atheism A Very Short Introduction, Oxford University, Press, New York.
5. Bertrand Russell, Atheism: Collected Essays: 1943–1949 New York: Arno Press, 1972.
6. Stefan Baumrin (2008). Antitheism and Morality, 39(1), 73–84. Penner, Myron A. (2015). Personal Anti-Theism and the Meaningful Life Argument. Faith and Philosophy, 32(3), 325–337
7. José R. Maia Neto (1997). Academic Skepticism in Early Modern Philosophy. Journal of the History of Ideas, 58(2),
8. الزبيدي، محمد بن محمد الحسيني، تاج العروس من جواهر القاموس، تحقيق: مجموعة من المحققين، نشر دار الهداية، ج27، ص233)۔
9. الرازي، أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمي الملقب بفخر الدين، مفاتيح الغيب، المجلد 9، ج25، ص61.