Table of Contents
انسان فطری طور پہ دیندار ہے
انسان کی دینداری کسی بیرونی جبر، خوف، جہالت یا غربت کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک فطری جذبہ ہے جو اس کی سرشت میں شامل ہے۔ تاریخی، دینی، سائنسی اور نفسیاتی تحقیقات اس حقیقت کی تائید کرتی ہیں کہ انسان ہمیشہ کسی نہ کسی اعلیٰ ہستی پر ایمان رکھتا آیا ہے، چاہے وہ کسی بھی دور، تہذیب یا علاقے سے تعلق رکھتا ہو۔
دینی نقطۂ نظر سے، قرآن و حدیث سمیت دیگر آسمانی کتب اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ انسان کی فطرت میں خدا کی پہچان ودیعت کی گئی ہے۔ اسلام میں "فطرت” کا تصور واضح کرتا ہے کہ ہر انسان ایک بنیادی روحانی رجحان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، جو اسے اپنے خالق کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
تاریخ بھی اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے۔ قدیم تہذیبوں—چاہے وہ مصر، بین النہرین، ہندوستان یا یونان کی ہوں—میں خدا یا دیوتاؤں کا تصور ہمیشہ موجود رہا ہے۔ حتیٰ کہ وہ قبائل اور اقوام جو سادہ زندگی بسر کرتے تھے، وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں ماورائی ہستیوں پر ایمان رکھتے تھے۔
سائنسی اور نفسیاتی تحقیق بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ دینداری کا رجحان انسانی ذہن میں موجود ہے۔ ماہرینِ نفسیات کا ماننا ہے کہ مذہب انسانی ذہن کو ایک فطری تسکین فراہم کرتا ہے اور اس کا تعلق صرف خوف سے نہیں بلکہ مقصدیت اور اخلاقیات سے بھی ہے۔ جدید نیورو سائنس کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ میں مخصوص حصے ایسے ہیں جو روحانیت اور ماورائی احساسات سے منسلک ہیں، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ دینداری ایک فطری حقیقت ہے۔
نتیجتاً، انسان کا دینی رجحان کسی خارجی عنصر کا پیدا کردہ نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے، جو اس کی روحانی، علمی اور نفسیاتی ساخت کا لازمی حصہ ہے۔
الحادی نظریہ رکھنے والے دین کو انسان کا اپنا پیدا کردہ وہم قرار دیتے ہیں۔ ذیل میں ان نظریات کو بیان کرتے ہیں پھر ان پر تبصرہ کرتے ہیں:
الحادی نظر سے دین کے محرکات:
۱۔خوف
وقتاً فوقتاً رونما ہونے والے قدرتی حادثات کا خوف۔
ول ڈیورینٹ کہتے ہیں:
کسی کو معبود بنانے کی اصل وجہ موت کا خوف ہے۔ ابتدائی انسان کو طبیعی موت بہت کم آتی تھی۔ بیشتر حادثات اور بیماریوں کی وجہ سے موت واقع ہوتی تھی۔ اس لیے ابتدائی سادہ لوح انسان یہ نہ سمجھ سکے کہ موت ایک طبعی چیز ہے بلکہ اسے مافوق طبیعت سے منسوب کیا جاتا تھا۔
اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً رونما ہونے والے حادثات کے عوامل اس وقت کا انسان نہیں سمجھ سکتا تھا، نہ ہی ان کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ اس طرح ایک معبود فرض کر لیا کہ وہ ان کی مدد کرے اور مدد ملنے کا شکر ادا کرنے کے لیے اس کی پوجا کریں۔ (۱)
اس کے بعد رسل (Bertrand Russell)نے اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے کہا:
دین کی پیدائش کے تین اسباب ہیں:
الف: حادثات کا خوف۔ جیسے بادل کی گرج، بجلی کی چمک، زلزلہ، سیلاب وغیرہ جن سے کبھی نقصانات ہوتے اور کبھی زندگی کو خطرہ ہوتا ہے۔
ب: آپس کی لڑائیوں اور جنگوں کی وجہ سے اٹھنے والے نقصانات۔
ج: جنسی خواہشات سے سرزد ہونے والی خلاف ورزیوں کے خوف کی وجہ سے۔
ان وجوہات سے پناہ طلب کرنے کی خواہش نے دین کا تصور جنم دیا۔
جوابات
ان مفروضات کے چند جوابات ہیں:
۱۔ اول تو یہ صرف مفروضے اور ظن و تخمینے ہیں جو علمی شواہد پرمبنی نہیں ہیں۔
۲۔ ایسے مفروضے ان باتوں کے بارے میں قائم کیے جاتے ہیں جو معاشرے میں رائج ہیں لیکن ان کی کوئی بنیادی توجیہ نہیں ہے جیسے بعض چیزوں اور عدد ۱۳ کی نحوست وغیرہ جن کے کے بارے میں مختلف اقوام میں مختلف بدشگونیاں مشہور ہیں۔ ان بدشگونیوں کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ یہ کہاں سے پیدا ہوئیں۔
لیکن جن باتوں کی جڑیں انسانی فطرت میں پھیلی ہوئی ہیں اور عقل و منطق پر مبنی مضبوط دلائل موجود ہیں ان کے بارے میں مفروضے قائم نہیں کیے جاتے بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے:
خوف کی وجہ سے خدا کا تصور وجود میں نہیں آیا بلکہ خدا کی وجہ سے خوف آتاہے۔ یعنی خدا کی نافرمانی سے خوف آتا ہے۔
۲۔جہالت
قانون طبیعت کے تحت رونما ہونے والے حوادث کی طبعی توجیہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اللہ کا تصور وجود میں آیا۔
مثلاً جب زلزلے کی وجہ اور سبب معلوم نہیں تھا تو سمجھا گیا کہ کوئی طاقت ہے جو اتنی بڑی زمین کو ہلا دیتی ہے۔
جب بادلوں سے پانی برسا تو معلوم نہیں تھا کہ بادلوں سے پانی کیسے آتا ہے تو یہ سمجھا گیا کہ کوئی ذات ہے جو بادلوں سے پانی برساتی ہے۔
اس طرح وہ کہتے ہیں کہ سائنس ان حادثات کی نسبت مادی علل و اسباب سے دیتی ہے جب کہ اہل دین ان علل و اسباب سے واقف نہیں ہیں اس لیے وہ ایسی طاقت سے نسبت دیتے ہیں جسے وہ اللہ اور معبود بناتے ہیں۔
ایک مثال یہ دینا چاہوں گا کہ جب انسان کو پتہ نہ چلا کہ روئے زمین پر روح یعنی حیات کہاں سے آئی جب کہ حیات کا سرچشمہ حیات ہوتی ہے تو اس مجہول کی جگہ کچھ لوگوں نے اللہ کو رکھ دیا۔
جواب: ملحدین کے یہ نظریات خود جہالت پر مبنی ہیں۔ ملحدین کو سرے سے علم ہی نہیں کہ دین والے طبعی قانون اور اللہ تعالیٰ کے ارادے میں کسی تضاد کے قائل نہیں ہیں۔
دین والے اللہ کو قانون طبیعت کی جگہ نہیں رکھتے بلکہ طولاً دونوں کے قائل ہیں۔ اللہ کو خالق طبیعت، کائنات کا قانون ساز، نظام دہند ہ، علت العلل اور مسبب الاسباب سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو سبب بنانے والا سمجھتے ہیں نہ یہ کہ اللہ کی جگہ سبب کو رکھتے ہیں کہ سبب کے انکشاف سے اللہ سے بے نیاز ہوا جائے۔
حدیث میں آیا ہے:
أبی الله أن یجري الاشیاء إلا بأسباب، فجعل لکل شیء سبباً۔ (۲)
اللہ کا اٹل فیصلہ ہے کہ چیزیں اسباب کے ذریعے ہی جاری کی جائیں۔ پھر ہر چیز کا سبب پیدا کیا۔
دین والے سبب کی جگہ اللہ نہیں رکھتے بلکہ علّت و سبب کے کامل نظام کائنات سے اللہ کے وجود کی دلیل قائم کرتے ہیں۔
۳۔ استحصال
بعض ملحدین کہتے ہیں کہ سرمایہ داروں اور مفاد پرستوں نے غریبوں کا استحصال کرنے کے لیے مذہب اختراع کیا ہے:
سرمایہ دار جب غلاموں، مزارعوں اور مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں اور وہ سرمایہ داروں کے خلاف آواز اٹھانا چاہتے ہیں تو سرمایہ داروں نے مذہب کے تصورات ایجاد کر کے انہیں صبر اور محنت و مشقت قبول کرنے پر آمادہ کیا۔
اس مقام پر لینن کہتے ہیں:
دین قوموں کے لیے افیون ہے۔
جواب: یہ نظریہ مارکسزم کے اس مشہور نظریے پر مبنی ہے کہ تمام نظریات اقتصادی عوامل کی پیداوار ہیں۔ وہ اس طرف سرے سے متوجہ نہیں ہوئے کہ ان کا یہی نظریہ بقول ان کے اس وقت کے اقتصادی عوامل کی پیداوار ہے اور عوامل بدلتے رہتے ہیں، انہیں سکون و دوام اور عینیت حاصل نہیں ہے۔ اس طرح ان کے اس نظریے کی بھی عینیت نہیں ہے اور یہ بدل گیا ہے۔
اس قسم کے تمام توہمات کا صریح جواب قرآن مجید میں موجود ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَۃٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَا۰ۙ اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ كٰفِرُوْنَ۔ (۳)
اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ (عیاش) لوگ کہتے تھے جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔
دوسری آیت میں فرمایا:
وَكَذٰلِكَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ قَرْيَۃٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَا۰ۙ اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ۔ (۴)
اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی کی طرف کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے عیش پرستوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا ہے اور انہی کی پیروی کر رہے ہیں۔
ان آیات میں تمام انبیاء (ع) کے بارے میں بلا استثنا یہ فرمایا کہ انبیاء (ع) کی دعوت عیش پرستوں اور سرمایہ داروں نے مسترد کی ہے۔
درج ذیل آیت میں فرمایا کہ دعوت انبیاء (ع) کی غریبوں نے پذیرائی کی ہے۔ قدیم ترین نبی حضرت نوح (ع) کی قوم نے کہا:
فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰىكَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ ہُمْ اَرَاذِلُـنَا بَادِيَ الرَّاْيِ۰ۚ وَمَا نَرٰي لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍؚبَلْ نَظُنُّكُمْ كٰذِبِيْنَ۔ (۵)
ان کی قوم کے کافر سرداروں نے کہا: ہماری نظر میں تو تم صرف ہم جیسے بشر ہو اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہم میں سے ادنیٰ درجے کے لوگ سطحی سوچ سے تمہاری پیروی کر رہے ہیں اور ہمیں کوئی ایسی بات بھی نظر نہیں آتی جس سے تمہیں ہم پر فضیلت حاصل ہو بلکہ ہم تو تمہیں کاذب خیال کرتے ہیں۔
۴۔ میراث گزشتگان
دین گزشتہ نسلوں کی میراث ہے۔ یعنی اس وقت لوگوں کے پاس جو دینی عقائد ہیں وہ قدیم انسانوں سے نئی نسلوں کو منتقل ہوئے ہیں۔
جواب: اس نظریے نے یہ نہیں بتایا کہ دین کی پیدائش کا سبب کیا ہے بلکہ یہ بتایا کہ دین قدیم انسانوں کے پاس تھا۔
اس سے اگر کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو یہ ہے کہ دین انسان کے وجود کے ساتھ ساتھ رہا ہے اوریہ انسان کا لازمہ ہے۔ پس دین فطرت کا تقاضا ہے۔
حوالہ جات
(1)قصۃ الحضارۃ ج۱ ص۹۹
(۲)الکافی ج۱ص۱۸۳
(۳)سورہ سبا :۳۴
(۴) سورہ الزخرف :۲۳
(۵)سورہ ھود :۲۷
اقتباس از کتاب "انسان اور کائنات میں اللہ کی تجلی”