Table of Contents
ڈاکٹر علی حسین عارف، ڈائریکٹر ڈپارٹمنٹ آف فیتھ اینڈ ریزن
[…] (گذشتہ سے پیوسطہ) […]
الحاد کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات کے مطابق نئی نسل کی دین سے دوری اور الحاد کی طرف مائل ہونے کے اسباب میں سے ایک اہم سبب انٹرنیٹ ہے، جیساکہ سنہ ۲۰۰۹ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق skepticism کی ترویج کے اسباب میں سے ایک اہم سبب YouTubeہے۔(۱۹) اسی طرح ایک دوسری تحقیق کے مطابق جدید سکیولرزم کی بنیاد گزاری، اشاعت اور اس کے ماننے والوں کو منظم انداز میں جمع کرنے میں انٹرنیٹ ایک اہم اور مؤثر ذریعہ تھا، انٹرنیٹ کے ذریعہ سکیولرزم کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا گیا اور تمام سکیولرسٹس کو یہ پیغام پہنچایا گیا کہ ا سکیولرزم کا رشتہ تمام تر ملکوں، نسلوں اور علاقوں سے بلند ہے، اور ایک سکیولرسٹ کے لیے علاقہ، ملک اور فرد کے لیے امتیازی خصوصیات کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ (۲۰)
ایک اور تحقیق سنہ ۲۰۱۸ میں کی گئی جس کا موضوع تھا سوشل میڈیا اور اس کے سکیولرزم پر اثرات، اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ نوجوانوں کے دین اور دینی عقائد کے بارے میں موجود نظریات کی تبدیلی میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا، اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی نوجوانوں کو سوچنے کے انداز میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔(۲۱)
چونکہ آج کل نومولود بچے سے لیکر عمررسیدہ افراد تک موبائل فون استعمال کرتے ہیں ، جس میں انٹرنیٹ کی تیز ترین سہولیات موجود ہوتی ہیں ، اور آرٹیفیشل ذہانت کی طاقت سے مسلح یہ موبائل ہر وہ چیز دکھاتا ہے جس کی طرف خواہشات نفسانی کا میلان ہوتا ہے، لیکن یہ غیر تربیت یافتہ مستعمل ان کے نقصانات سے اس وقت تک آگاہ نہیں ہوتا جب تک زندگی کا اہم ترین حصہ نہیں گزرتا، اور جس وقت متوجہ ہوتا ہے اس وقت تک بہت کچھ گزر چکا ہوتا ہے اور بعض اوقات حسرت اور افسردگی کے علاوہ کوئی اور چیز حاصل نہیں ہوسکتی۔
ایسے میں جب تک مسؤلین مملکت، والدین ، اساتذہ اور دیگر ذمہ داران نسل نو کی تربیت اور تعلیم کا اہتمام مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں کریں گے تب الحادی افکار اور نظریات سے معاشرہ کو محفوظ نہیں بنایا جاسکتا۔ مکمل منصوبہ بندی سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایک جامع اور مربوط طریقہ کار وضع کیا جائے، کہ جس کے بچوں کے خیالات، افکار، دوستوں اور ترجیحات کو جانا جائے، اور اسی کی بنیاد پر بروقت تعلیم اور تربیت کا آغاز کیا جائے، کیونکہ نوجوانی میں تربیت آسان ہے بنسبت جوانی کی، اور جوانی میں تربیت زیادہ آسان ہے بنسبت بڑھاپے کی۔
۶۔ الحاد بطور فکری فیشن یا دین اور تہذیب وتمدن کی مخالفت کو روشن فکری کی علامت سمجھنا
معاشرہ میں تغیر اور تبدل ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، اور اگر اہل معاشرہ مستقبل میں پیدا ہونے والے تغیرات اور تحوالات سے نمٹنے یا مطابقت پیدا کرنے کی منصوبہ بندی نہ کریں تو لا محالہ طور پر سماجی، مذہبی، اور معاشرتی اقدار میں غیر متوقع تبدیلیاں رونما ہوں گی، جس کے نتیجے میں اچھائی اور برائی کے معیارات بدل جائیں گے، اچھائی کو برائی، برائی کو اچھائی اور نیک کام کرنے والوں کو برا اور برے کام کرنے والوں کو اچھا سمجھنے لگیں گے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تہذیب وتمدن اور عالی اقدار کو مسترد اور چیلینج کرنے والوں کو روشن فکری اور وسیع نظری کی علامت سمجھنے لگیں گے۔ یہی صورت حال آج کل نوجوان نسلوں کے ساتھ پیدا ہورہی ہے، اصلاح کے نام پر بغیر کسی غور وفکر کے دین اور دینی اعتقادات پر کی جانے والی تنقیدات کو حماقت اور جہالت پر حمل کرنے کے بجائے روشن خیالی اور اعلیٰ ظرفی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اس کے برعکس روایتی اور مذہبی اقدار کی حمایت اور عمل درآمد کرنے والوں کو دقیانوسی نظریات کے حامل قرار دیا جاتا ہے۔ یہی نظریہ موجب بنا ہے کہ آج کل دین فہمی، اور دین شناسی سے عاری اور خالی افراد کی طرف سے دین پر اعتراض کئے جانے والے اعتراضات مسترد اور ان لوگوں کی مذمت کرنے کے بجائے ان معترضین کی حوصلہ افزائی اور مدح سرائی کی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ کفراور الحاد کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔
لہذا جب تک معاشرہ میں روشن خیالی اور اس قسم کی دیگر اصطلاحات کی صحیح وضاحت نہیں کی جائے گی اور ہر بدعت گزار اور نافہم معترضین کی حوصلہ شکنی نہیں کی جاتی تب تک معاشرے میں الحادی افکار وخیالات جنم لیتے رہیں گے۔ اسی طرح معاشرے کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ چند بے سروپا علمی اصطلاحات سیکھنے کے بعد دینی اعتقادات اور مسلمات پر اعتراض اور تنقید اختلال فکری اور نفسیانی بیماری کی علامت ہے نہ روشن فکری اور وسیع نظری کی۔ جس معاشرہ میں یہ فکر عام ہوجائے گی اس دن معاشرہ اصلاح، ترقی اور تکامل کی طرف گامزن ہوجائے گا۔
۷۔ غیر ضروری پابندیاں یا بے لگام آزادی (Unnecessary Restrictions and or Uncontrolled Freedom)
افراط اور تفریط کسی بھی شعبہائ زندگی میں مطلوب عمل نہیں ہے، کیونکہ ان کے نتیجے میں مفاسد ہی واقع ہوتے ہیں، لہذا افراط اور تفریط کے بجائے اعتدال پسندی کو ترویج دینی چاہیے تاکہ مطلوبہ نتائج اور مقاصد حاصل ہوسکیں۔ تعلیم اور تربیت جیسے حساس ترین اور اہم ترین امور میں بہت ہی ہوشیاری اور میان روی سے کام کرنا چاہیے ورنہ افراط اور تفریط نفرت اور بغاوت کا سبب بنتی ہے ۔ اس بنیادی اصل کو پیش نظر رکھتے ہوئے معاشرہ تحقیق کرتے ہیں تو نتیجہ بالعکس نظر آتا ہے، سوائے چند والدین کے اکثر اور بیشتر تربیت کے حوالے سے شدت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا تساہل اور سستی روی کا شکار ہوتے دیکھائی دیتا ہے۔ جبکہ جدید تحقیقات بتاتی ہیں بچوں کی بے راہ روی ، ملحدانہ سوچ، اور تباہی میں غیر ضروری سختیوں اور پابندیوں کا بہت زیادہ کردار ہے، بے جاسختیوں کے نتیجے میں بچے ہر اس کام سے نفرت کرنا شروع کر دیتے ہیں جن کے لیے والدین یا دیگر متعلقہ افراد نے سختیاں کی ہیں، دین کے معاملے میں غیر ضروری سختیاں اور پابدیاں بچوں کو دین سے بے زاری اور نفرت کا سبب بنتی ہیں، لہذا والدین کو چاہیے بچوں کی اس وقت تربیت کریں جب وہ ذہنی طور پر تیار ہوں۔ معصومین علیھم السلام مروی متعدد فرامین بھی اسی بات کی تائید کرتے ہیں جیسا کہ حضرت علیؑسے منقول ہے: إِنَّ لِلْقُلُوبِ شَهْوَةً وَ إِقْبَالًا وَ إِدْبَاراً، فَأْتُوهَا مِنْ قِبَلِ شَهْوَتِهَا وَ إِقْبَالِهَا، فَإِنَّ الْقَلْبَ إِذَا أُكْرِهَ عَمِيَ۔ (۲۲)
دلوں کی بھی خواہشات ہوتی ہیں وہ متوجہ بھی ہوا کرتے ہیں اور منہ موڑتے بھی ہیں۔ لہٰذا دلوں سے ان کی خواہشات کے مطابق متوجہ ہونے کی حالت میں کام لیا کرو۔ بچوں میں آمادگی اس وقت آتی ہے جب آپ ان کو کوئی تحفہ دے دیں، کسی پارک میں تفریح کےلیے لے جائیں یا ان کی پسند کی کوئی چیز خرید رہے ہوں اس وقت اگر آپ کوئی مذہبی تعلیم ان کو دے دیں گے تو یہ ان کے دل میں اتر جائے گی۔ (۲۳)
اسی طرح بے لگام آزادی دینے سے بھی دین سے دور ہوجاتے ہیں اور زندگی میں اچھائی اور برائی کا معیار اور پہچان کھو دیتے ہیں، کیونکہ بچے ذہنی، علمی اور تجربے کے لحاظ سے اتنے سمجھدار نہیں ہوتے کہ وہ ہمیشہ اچھی اور مفید امور کی انجام دہی کو ترجیح دے اور نقصان دہ اور غیر مشروع امور کو ترک کرے ، بلکہ عمر اس حصے میں انہیں بہت زیادہ توجہ اور راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا ان کو آزادی مطلق دینے کے بجائے محبت اور احترام کے ساتھ حق اور باطل کی پہچان کرائیں، سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا سکھائیں، اور عدل وانصاف کی اہمیت بتائیں، کفروشرک کے نقصانات اور مفاسد سے آگاہ کریں۔
۸۔ اہل دین کے عمل اور قول میں تضاد Contradiction in Words and Deeds))
دین سے دوری اور الحاد کی طرف مائل ہونے کی وجوہات اور اسباب میں سے ایک اہل دین کے اعمال اور گفتار میں عدم مطابقت ہے۔ اگر سیرت انبیاء کرام علیھم السلام، اسی طرح ائمہ اطہار ؑ اور سلف صالحین کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو یہ چیز نمایاں نظر آتی ہیں کہ وہ پہلے خود کرتے تھے پھر دوسروں کو کرنے کا حکم دیتے تھے، قرآن مجید کی متعدد آیات جیسے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف: 2، 3) اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو۔ اسی طرح بکثرت روایات موجود ہیں جن میں معصومین علیھم السلام فرماتے ہیں: عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: كُونُوا دُعَاةً لِلنَّاسِ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ؛ لِيَرَوْا مِنْكُمُ الِاجْتِهَادَ وَ الصِّدْقَ وَ الْوَرَعَ۔(۲۴) اس روایت میں مولیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں لوگوں کو دعوت رفتار اور کردار کے ذریعہ دے تاکہ دعوت مؤثر واقع ہوسکے۔ اسی طرح دوسری روایت میں فرماتے ہیں:عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ص أَنَّهُ قَالَ لِلْمُفَضَّلِ أَيْ مُفَضَّلُ قُلْ لِشِيعَتِنَا كُونُوا دُعَاةً إِلَيْنَا بِالْكَفِّ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ وَ اجْتِنَابِ مَعَاصِيهِ وَ اتِّبَاعِ رِضْوَانِ اللَّهِ فَإِنَّهُمْ إِذَا كَانُوا كَذَلِكَ كَانَ النَّاسُ إِلَيْنَا مُسَارِعِينَ۔ اس فرمان میں بھی مؤثر دعوت تبلیغ کے تین بنیادی اراکین کو بیان فرمایا، پہلا رکن یہ ہے کہ مبلغ کو چاہیے اللہ محارم اللہ ( اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں )، دوسرا رکن ہے معصیت الٰہی سے اجنتاب کرنا اور تیسرا رکن اللہ کی پسیندیدہ چیزوں کی اتباع، پس اگر کوئی ان صفات کا حامل ہو، اور دین الٰہی کی طرف لوگوں کو دعوت دے تو لوگ کھنچ کھنچ کر دین کی طرف لپکیں گے۔ (۲۵)
اسی طرح مولیٰ مؤحدین حضرت امیرالمؤمنین ؑ فرماتے ہیں: قَالَ علی ع مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ لِلنَّاسِ إِمَاماً- فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِهِ قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِهِ وَ لْيَكُنْ تَأْدِيبُهُ بِسِيرَتِهِ قَبْلَ تَأْدِيبِهِ بِلِسَانِه(۲۶) راہنما اور لیڈر کو چاہیے دوسروں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنے سے پہلے اپنی تعلیم کا اہتمام کرے، کیونکہ جاہل جہالت ہی پھیلائے گا، اسی طرح زبانی تربیت کی بجائ عملی تربیت ہونی چاہیے، یعنی خود اچھا بنتا جائے لوگ خود خود بنتے جائیں گے، خود برائیوں سے بچتے جائے لوگ آپ کو دیکھتے جائیں گے۔ ان تمام فرامین سے یہ معلوم ہوتا ہے نسلِ نو کی تعلیم و تربیت سے پہلے اہل دین معلم ، اور مربیّ کو خود زیور علم وعمل سے آراستہ ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کو دین سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ لیکن معاصر دنیا میں ایسے اہل دین کی کوئی کمی نہیں جن کی گفتار اور رفتار میں نمایاں فرق موجود ہے، اگرچہ یہ تفاوت اور اختلاف تمام شعبہائ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں مشترکہ طور پایا جاتا ہے، لیکن اہل دین سے لوگوں کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں اس لیے ان میں ان نامطلوب اور غیر متوقع صفات کا پایا جانا سبب بنتا ہے کہ لوگ دین سے لاتعلق اور الحاد کی طرف مائل ہوجائیں، کیونکہ عمل اور قول میں تضاد سے لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں شاید یہ جو اچھی اچھی باتیں صرف کرنے کی ہوتی ہیں عمل کے لیے نہیں وگرنہ خود اہل پہلے عمل کرتے ، پھر ہمیں بتاتے۔
لیکن تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے اس قسم کی نامطلوب چیزیں کوئی نئی نہیں ہے، بلکہ طول تاریخ میں ہر مشغلے اور شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد میں دیکھی جاسکتی ہیں، مثلا علم طب( چاہیے ہومیوپیتھی ہو یا ایلوپیتھی) کے شعبہ کو دیکھیں ، کیا ڈاکٹر اور حکیم حضرات مریض نہیں ہوتے، کیا وہ ان ساری چیزوں سے اجتناب کرتے ہیں جن سے مریضوں کو منع کیا کرتے ہیں، اسی طرح باقی شعبوں میں کم وبیش یہی صورت حال ہے، تو آیا ڈاکٹر یا حکیم کے بیمار ہونے یا مضرِ صحت چیزوں کے استعمال کرنے سے بیمار شخص کو ڈاکٹر یا حکیم کے پاس جانے روکا جاسکتا ہے، اسی طرح علم طب سے بیزاری کا اظہار کیا جاسکتا ہے! یقیناً کوئی متفق نظر نہیں آئے گا، کیوں دین کے معاملے میں کسی کی بداعمالیوں کی وجہ باقی دین سے منحرف ہوسکتے ہیں! اسی طرح کسی انجینیر کے گھر کی خرابی سے پوری انجینیرینگ نفرت کرنا معقول ہے! تمام تر دین کی طرف دعوت دینے والوں کو چاہیے پہلے خود عمل کرے پھر تبلیغ کرے، تاکہ ان کی باتوں میں اثر پیدا ہو اور لوگوں پر صحیح طریقے سے اتمام حجت ہوجائے۔
اسی طرح اور بہت سارے اسباب ہیں جیسے دین کے بارے میں غفلت، جہالت اور عدم تفکر، علماء سے دوری اور علمی نشست کا فقدان، مؤثر دینی تبلیغات اور تربیتی مراکز کا فقدان، نامناسب دوستانہ ماحول، خواہشات نفسانی ، مغرب اور اہل مغرب کو بطور نمونہ پیش کرنا، ایمان کی کمزوری اور خشک روحانیت ، فلسفہ خیر وشر سے عدم آشنائی ، نااہل لوگوں کے ملحدین کے ساتھ ناکام مناظرے اور مباحثے ، اسلام کے نام پر جہالت کی تبلیغ اور خرافات کی تشہیر ، اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے حصول یا نام پر مغرب کی طرف سفر ، مغرب اور مغرب ثقافت سے ناآشنائی، غیر معقول موازینے اور تعمیمات ، اس کے علاوہ بھی بہت سارے اسباب ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے لوگ خصوصاً نوجوان نسل الحاد کی طرف مائل ہورہی ہے، جب تک صاحبان فکر ونظر اور دین شناس علماء منظم انداز میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اس فکرِ ناسور کے ساتھ مقابلہ نہیں کریں گے، تب تک اس عالمی فکری وبا سے نجات ممکن نہیں ہے۔
خلاصہ
انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے ربوبیت کا شعور ودیعت فرمائی ہے، اور توحید انسان کا ابتدائی دین ہونے کے ساتھ ساتھ انبیاء کرام علیھم السلام کی تبلیغ کا محور اور مرکز بھی رہی ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ اہل بدعت اور خواہشات نفسانی کے غلاموں نے اس دین فطرت سے انحراف کرتے ہوئے خودساختہ ادیان سازی شروع کی، جو مختلف ناموں کے ساتھ اب بھی اقوام عالم میں موجود ہیں انہیں میں سے ایک الحاد ہے، جو مختلف ناموں اور اصطلاحات کے ساتھ زمان قبل از مسیح سے تا حال چلا آرہا ہے، اور ملحدین اپنے ملحدانہ افکار ونظریات کے ذریعے سادہ لوح، اور صحیح دینی فہم اور ادراک نہ رکھنے والے گمراہ بھی کرتے رہے ہیں ، لیکن عصر حاضر میں سائنسی ترقی اور جدید مواصلاتی نظام کی بدولت اس گمراہ کن نظریہ کی طرف نسلِ نو کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے، اس انحرافی عقیدہ کی طرف نسلِ نو کے مائل ہونے کے متعدد اور مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہیں ان میں چند اہم اسباب اور وجوہات کو زیر نظر مقالے میں بیان کیا گیا ہے، جیسے سائنسی ترقی اور اہل دین کا جمود خصوصاً اہل کنیسہ کی طرف سے سائنسی انکشافات کے خلاف فتوے اور سائنسدانوں کے خلاف کئے جانے والے انسانیت سوز مظالم اور درندگی، الحادی فلسفوں کی نشر واشاعت، الحاد کو بطور فیشن اور روشن فکری کی علامت سمجھنا، تربیت میں افراط اور تفریط، بے لگام انٹرنیٹ، اہل دین کے اعمال اور اقوال میں تضادات، مغربی تہذیب وتمدن سے نا آشنائی، دین مقدس اسلام کے بارے میں صحیح ادراک وفہم نہ رکھنا، اہل دین سے دوری، مراکز تربیت کا فقدان، مسئلہ خیر وشر سے عدم آگاہی اور دین کے نام پر شدت پسندی، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی ترویج اسی طرح بہت سی دیگر وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ اس الحادی نظریہ سے کوئی ملک اور تعلیمی ادارہ محفوظ نہیں ہے، لہذا تمام دین کے درد رکھنے والے صاحبان فکر ونظر کے لیے ضروری ہے وہ اس اعتقادی آگ سے نسلِ نو کو بچانے کے لیے مشترکہ طور پر لائحہ عمل طے کرے، ورنہ سبھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
حوالہ جات:
19. Farley, Tim. (2009). Skepticism via YouTube, The Committee for Skeptical Inquiry
20. Beck, U., & Beck-Gernsheim, E. (2002). Individualization: Institutionalized individualism and its social and political consequences. London: Sage
21. Ahmed Usmani, S. A., & Akmal, Z. (2018). Social Media and Its Impact on Secularism in Society. The Islamic Culture "As-Saqafat-Ul Islamia" الثقافة الإسلامية – Research Journal – Sheikh Zayed Islamic Centre, University of Karachi, (39).
22. نهج البلاغة، قم، هجرت، ۱۴۱۴ق.
23. نجفی، محسن علی، نہالان اسوہ، ۲۰۲۲
24. كافي (ط – دار الحديث)، ج3، ص: 202.
25. مغربى، ابن حيون، نعمان بن محمد, دعائم الإسلام، ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام، سال چاپ: 1385 ق
26. نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص: 481، بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج2، ص: 57۔