Table of Contents
(گذشتہ سے پیوسطہ)
سکیولرزم Secularism
سکیولرزم ایک ایسی اصطلاح ہے جو عرف عام میں مختلف اور غیر واضح مفہوم کے ساتھ بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے، اور بعض لوگ اسے روشن خیالی، اور روشن فکری کےاظہار کےلیے استعمال کرتے ہیں، بعض دین سے بیزاری اور دوری کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں، بعض افراد لاشعوری میں بطور فیشن استعمال کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس کے قائلین زندگی کے منبع کو سائنسی تجربات، عقل اور مصالح عمومی قرار دیتے ہیں، اور بہت سارے دینی عقائد اور نظریات کو اپنی زعم اور فھم کی بنیاد پر مورد اعتراض اور قابل مناقشہ قرار دیتے ہیں، لیکن اس نظریے کو حاملین سبھی ملحد نہیں ہوتے، لیکن اکثریت کے غلبہ کی وجہ سے عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے الحاد اور سکیولرزم دونوں ایک ہیں۔(۱۰)
سکیولرزم کی مختصر تاریخ کے مصنف کے مطابق برطانیہ اور بعض دیگر مغربی ممالک میں سکیولرزم کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات بتاتی ہیں اہل مغرب کی واضح اکثریت ایک طرف دین (چرچ) سے اپنی وابستگی کا اعتراف کرتی ہے، جیسا کہ سنہ ۲۰۰۱ میں منعقد کی جانے والی تحقیق کے مطابق برطانیہ جسے مغربی یورپ میں سب سے زیادہ سکیولر مملکت تصور کیا جاتا ہے وہاں کے ۷۲ فیصد شہریوں نے اعتقادی اعتبار سے اپنے آپ کو دین مسیح سے منسلک قرار دیا، اسی طرح یورپ کے دیگر ممالک کے ۷۷ فیصد شہریوں موحد ہونے کا اظہار کیا، جبکہ دوسری طرف مذہبی، سماجی، سیاسی ، صحافت اور دیگر شعبہائ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے مطابق مغربی معاشرہ ایک سکیولر معاشرہ ہے ۔ تو یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا یہ دونوں واقعاً قابل جمع بھی ہیں یا لوگ صرف لادینیت کے دھبے لگنے کے خوف کی وجہ سے ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جبکہ واقع میں دونوں کا جمع ہونا ممکن نہیں ہیں، اسی طرح یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کیا سکیولرزم کی طرف لوگوں کے رجحان علامت ہے کہ دین ختم ہونے والا ہے، اور انسان عقلی اعتبار سے کمال کے مرحلہ میں پہنچ چکا ہے کہ اب اسے الٰہی اور دینی تعلیمات وعقائد کی ضرورت نہیں ہیں، یا یہ صرف جہالت کا نتیجہ اور خواہشات نفسانی کی غیر مشروط اتباع ہے جو انسان کو تمام تر انسانی، دینی اور اخلاقی کی قیود اور حدود سے آزاد کررہی ہے۔ اسی طرح یہ سوالات بھی قابل فہم اور غور ہیں کیا لوگ اعتقادات دینیہ کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا دین کو سمجھانے والے صحیح طریقے سے دین نہیں سمجھا سکتے، یا دین ترقی یافتہ سائنسی دور کی علمی مشکلات کو حل نہیں کرسکتا۔ اسی طرح یہ سوال بھی قابل توجہ ہے کہ سکیولرزم صرف ادیان الٰہی کے لیے ایک چیلنج ہے یا تمام تر ادیان بشری کے لیے۔ سکیولرزم کے بارے کی جانے والی تحقیقات بتاتی ہیں کہ سکیولرزم ان تمام ادیان کے لیے ایک معمہ ہے جن میں اقدار، عقائد اور احکام زندگی پائے جاتے ہیں۔ پس سکیولرزم اگرچہ وسیع معنی رکھتا ہے لیکن اس کی انتہا کہیں نا کہیں جاکر الحاد سے جاملتی ہے۔(۱۱)
الحاد کے چند اہم اسباب
۱۔ سائنسی ایجادات اور علماء دین کا فکری جمود
الحاد کے اسباب میں سے پہلا سبب سائنسی ایجادات اور علماء دین کا فکری جمود ہے۔ کیونکہ ایک طرف مغرب نے سائنسی تجربات کی روشنی میں حقائق کو دریافت کرنا شروع کیا، اور نظریات، عقائد اور دیگر امور کی اصلیت وحقائق کو جاننے کے لیے سائنسی تجربات کو ہی یقینی اور ناقابل تردید زریعہ ماننا شروع کیا۔ دوسری طرف کلیساء اور علماء دین نے وسعت نظری، حقیقت بینی، اور زمانہ شناسی کو اپنانے کے بجائے تمام تر سائنسی ایجادات کو شیطانی حربے اور دین کے ساتھ متضاد قرار دیکر ان کو مسترد کرتے ہوئے صاحبان نظر کے خلاف فتوؤں کا طوفان بپا کردیا، جس کے نتیجے میں اہل دین اور سائنس کے ماننے والے مد مقابل آنے لگے، جن سے عام لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دین علم وترقی کے خلاف ہے، لہذا اگر ترقی مطلوب ہے تو دین کو چھوڑنا پڑے گا، اور دین کو چھوڑنے کے لیے سب سے آسان کام یہ ہے کہ دین کی بنیادوں پر اعتراضات شروع کرے جو انکارِ وجود اللہ تعالیٰ سے شروع ہوکر انکار معاد پر جاکر سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ دین مخالف قوتوں نے عوام اور سادہ لوح عوام کو یہ باور کرایا کہ زمان گزشتہ میں بہت سارے دینی اعتقادات اس لیے قابل قبول تھے چونکہ لوگوں کے پاس ان کو بغیر چوں وچرا قبول کرنے کےعلاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا، لیکن اب ان چیزوں کو ہم سائنسی ترقی اور تجربات کے نتیجے میں جان سکتے ہیں لہذا دین کی کوئی ضرورت نہیں۔ جیسے بارش کا مسئلہ ، بادل، زمین وآسمان کی حرکت اور اسی طرح کے دیگر امور۔ پس ہمیں آباء واجداد سےمنتقل ہونے والے ان نظریات پر نظر ثانی کرتے ہوئے سائنسی تجربات اور جدید علوم وانکشافات کی روشنی میں نئے نظریات قبول کرنے چاہیے۔(۱۲)
جواب: ہر مسئلہ کا حل سائنس کے ذریعے ڈھونڈنے کی ناکام کوششیں ، یقینیات اور حقائق کی معرفت صرف سائنس تک محدود نہیں ہے، بلکہ کتنے ہی سائنسی نظریات تھے جو کسی زمانے میں حقیقت کے طور پر اخذ کئے جاتے ہیں لیکن اب اسے مکمل طور مسترد کئے جاتے ہیں۔
۲۔ الحادی فلسفے
دوسرا ایک اہم سبب الحادی فلسفوں کا وجود ہے، عصر جدید میں مختلف ناموں کے ساتھ جدید فلسفے جیسے فلسفہ وجودیت، Existentialism)) ، مارکسیزم، Marxism))، کمیونیزم Communism))، کپیٹلزم Capitalism))، Logical Positivism, وجود میں آنے لگے ،(اگرچہ ان فلسفوں کے ماننے والوں میں دیندار افراد بھی موجود ہیں جیسے فلسفہ وجودیت میں دو قسم کے فلاسفرز موجود ہیں بعض موحد اور بعض ملحد، اسی طرح دوسرے فلسفوں میں بھی) انہیں مختلف انداز میں عوام الناس تک پہنچائے گئے، اور ان پڑھنے اور نقل کرنے والوں کو صاحبان فکر ونظر، روشن خیال، اور بڑے تعلیم یافتہ لوگوں میں شمار کرنے لگے، تو دینی علوم سے بے بہرہ لوگوں نے بھی ان کو پڑھنا شروع کیا جن کے پاس توحید، معاد اور ان جیسے دیگرنظریات پر سوائے تقلید کے کوئی عقلی ونقلی دلیل نہیں تھی، نتیجتاً بے بنیاد اشکالات اور توھمات کو حقیقت اور صحیح سمجھ کر دین سے لاتعلقی اور دوری اختیار کیا۔ معاصر دنیا میں ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں جو دین اور دینی علوم کو صاحبانِ علم ونظر سے حاصل کرنے کے بجائے خودساختہ نظریات اور عقائد کی تناظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں جو بقولِ ان کے غیر منطقی اور غیر معقول ہیں، جبکہ حقیقت میں ان کا یہ طریقہ کار غیر منطقی اور غیر دانشمندانہ ہے۔جیسا کہ اگر کوئی شخص کسی الیکٹرانک مشین کو طریقہ استعمال اور ہدایات پڑھے بغیر استعمال کرے ، پھر نقصان اٹھانا پڑے ، اور وہ کسی اورکو ذمہ دار ٹھہرائے تو لوگ اسے ہی مورد الزام قرار دیں گے، اور اس کے اس فعل کو حماقت پر حمل کریں گے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے دین ومذھب کو سمجھے بغیر گمراہ کن کتب اور نظریات کا مطالعہ کرے ، اور ناپختہ عقائد ونظریات کی وجہ سے تحت تاثیر قرار پائے تو اسے دین پر اعتراض کرنے حق حاصل ہے اور نہ نہ ہی دینداروں کو مورد لعن وطعن قرار دینے کا اختیار۔ بلکہ اسے چاہیےکسی بھی اعتراض سے پہلے اس مورد اعتراض نظریہ کو صحیح سے سمجھے پھر اعتراض کرے۔ (۱۳)
۳۔ معاشرتی ناانصافیاں (Social Injustice)
الحاد کے اسباب میں سے ایک اہم سبب معاشرتی ناانصافیاں ہیں، چونکہ معاصر دنیا میں معاشرہ ایک ایسے ظلم وستم پر مبنی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے جہاں پر جرائم اور ان کی سزائیں معاشرتی مقام ومنزلت کے حساب سے تعین کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نظام وقوانین کا نفاذ یکساں طور پر نہیں کیا جاتا، بلکہ غریب کے لیے انتہائی سخت، ناقابل برداشت اور ناقابل عفو سزائیں مقرر ہیں جبکہ اسی نوعیت کا جرم اگر کسی امیر سے سرزد ہوجائے تو یہ اس کا اشتباہ، قابل عفو غلطی بلکہ بعض کی نسبت سے فیشن اور معمول کا واقعہ شمار کیا جاتا ہے۔ جب معاشرے میں ایسا کام مسلسل ہوتا رہے، اور معاشرہ بھی اسلامی کہلاتا ہو، تو اس سے سادہ لوح لوگ یہی خیال وتصور کرتے ہیں ، یہ ساری ناانصافیاں شاید دین کے ساتھ ہماری وابستگی کی وجہ سے ہیں، اگر دین موجود ہے، اور دین میں ہر ظلم وستم کے خلاف سزائیں معین ہیں، تو کیوں ان سزاؤں کو نافذ نہیں کرتے، اور کیوں معاشرے میں ناانصافی کرنے والے کے خلاف اقدامات نہیں اٹھاتے، اور کیوں ان ظالموں کی چنگل سے مظلوموں کو چھڑایا نہیں جاتا؟ (۱۴)
۴۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی (Religious Extremism and Terrorism)
عالم اسلام میں الحاد کی طرف نوجوانوں کے رجحانات میں ایک اہم سبب انتہاپسندی اور دہشت گردی ہے۔ دین (چاہے الٰہی وآسمانی ہو یا انسان کا اختراع کردہ) کا بنیادی مقصد منتشر، متفرق، متشدد، اور مختلف افکار ونظریات رکھنے والے افراد میں محبت، اتحاد، امن اور سکون کی فضاء کو قائم کرنا ہے، لیکن جب دین کا دعویدار اسی دین کے نام پر انتہاپسندی، دہشت گردی، قتل وغارت، اور انسانیت سوز مظالم ڈھانا شروع کرے، اور دین کے نام پر درندگی اور بربریت کا بازار گرم کرے، تو اس کے نتیجے میں دین سے نفرت اور دین کے خلاف بغاوتوں کا وجود میں آنا کسی حد تک طبیعی امر ہے۔ اسلام جو امن، محبت، اخوت، رواداری، انصاف، مساوات، عدل، ایثار اور قربانی کا دین ہے، اس کے آفاقی اور الٰہی پیغامات کو دنیا تک نہیں پہنچایا جاسکا، نتیجتاً القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں نے اسے ایک دہشت گرد، ستمگر، وحشت گر، اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے والا مذھب کے طور پر متعارف کرایا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا دین مقدس اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بے خبر، اور مغربی واستعماری میڈیا کے تحت تاثیر نوجوانوں نے ان غیر مشروع اور دین مخالف حرکتوں کو دین کا ہی حصہ سمجھ لیا اور دہشت گردوں اور درندوں سے نفرت اور بیزاری کرنے کے بجائے دین سے لاتعلقی کا اظہار کرنا شروع کیا۔
اسی طرح مغرب میں الحاد نظریات پیدا ہونے اسباب میں سے ایک اہم سبب کو چرچ کی درندگی قرار دیا جاتا ہے، مثلا چرچ نے فرسودہ نظریات کے خلاف نظریات قائم کرنے پر ۱۴۸۱ سے ۱۴۹۹ ء تک یعنی اٹھارہ سالوں میں ۱۰۲۰ افراد کو زندہ جلایا، ۶۸۶۰ افراد کو چیر کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ۹۷۰۲۳ افراد کو اذیتیں دیکر دیکر مار دیا، اور مجموعی طور پانچ ملین افراد کو موت کی سزا سنائی گئی۔ اسی طرح بہت سے سائنسدانوں کو قتل کردیا گیا، اور ان کی لاشوں کو خاکسترد کردیا گیا۔ (۱۵)
۵۔ بے لگام انٹرنیٹ (Uncontrolled and Unlimited Internet Access)
انسانی زندگی کو تین اہم ترین حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے، بچپنا، جوانی اور بڑھاپا۔ ان میں سے بچپنا مقدمہ کی حیثیت رکھتا ہے، اور بچپنے میں جو تربیت کی جاتی ہے اس کے اثرات پوری زندگی پر مترتب ہوتے ہیں، بچے کا ذہن ہر قسم کے انحرافات سے پاک ہوتا ہے، گویا یہ اس زمین کی طرح ہے جس میں اب تک کوئی بیج نہیں ڈالا گیا۔پس جو اس میں بویا جائے گاوہی اُگے گا۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین حضرت علیؑ فرماتے ہیں: وإنَّما قلْبُ الحَدَثِ كالأَرضِ الخَاليَةِ ما أُلقِي فِيها مِن شَيء إلَّاقَبِلَتْه۔(۱۶) نو عمر کا دل خالی زمین کی طرح ہے جس میں جو بھی ڈال دیا جائے اسے زمین قبول کرتی ہے۔ ایسے میں جو ذہن خالی ہے اس میں صداقت، اخلاص، امانت، ایمان اور توحید کا بیج بویا جائے تاکہ ایک صالح، اور عدل وانصاف پر مبنی الٰہی معاشرہ وجود میں آئے، اگر اس کے برعکس اس میں جھوٹ، ریاکاری اور خیانت ، بے حیائی، لادینیت کا بیج بویا جائے تو کفر والحاد پر مشتمل ایک معاشرہ وجود میں آئے گا۔ (۱۷)
تربیت کی اسی اہمیت اور فریضہ کو نبی اکرم ﷺ سے مروی فرمان میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، روى عن النبى ﷺ: أَنَّهُ نَظَرَ إِلَى بَعْضِ الْأَطْفَالِ، فَقَالَ وَيْلٌ لِأَوْلَادِ آخِرِ الزَّمَانِ مِنْ آبَائِهِمْ،فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ آبَائِهِمُ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ لَا مِنْ آبَائِهِمُ الْمُؤْمِنِينَ لَا يُعَلِّمُونَهُمْ شَيْئاً مِنَ الْفَرَائِضِ وَ إِذَا تَعَلَّمُوا أَوْلَادُهُمْ مَنَعُوهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُمْ بِعَرَضٍ يَسِيرٍ مِنَ الدُّنْيَا فَأَنَا مِنْهُمْ بَرِيءٌ وَ هُمْ مِنِّي بِرَاءٌ. (۱۸)
رسول اللہﷺ سے روایت ہے: کہ آپ نے بعض بچوں کو دیکھا تو فرمایا: آخر زمانے کے باپوں پر افسوس ہو ۔ عرض کیا: یا رسول اللہؐ! ان کے مشرک باپ پر افسوس ہے؟ فرمایا: نہیں ۔ ان کے مؤمن باپ پر کہ وہ اپنی اولاد کو واجبات کی تعلیم نہیں دیں گے اور اگر وہ تعلیم حاصل کرنا چاہیں تو منع کریں گے اس کے مقابلے میں دنیا کے معمولی مفاد کو پسند کریں گے۔ میں ان سے بیزار ہوں اور وہ مجھ سے بیزار ہیں۔
پس اس حدیث بخوبی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بچوں کو واجبات کی تعلیم دینا والدین کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے، اور قیامت کے دن ان سے فریضہ کی ادائیگی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ لہذا دنیا کتنی ہی ترقی کرے، اور انسان کی پہنچ کائنات کے جس حصے تک ہی کیوں نہ ہو، واجبات اور محرمات کی تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ پر باقی ہے، بلکہ زمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ تعلیم وتربیت کی اہمیت مزید بڑھتی جاتی ہے، دور حاضر کو ICT کا دور کہا جاتا ہے، جس میں لمحوں میں وہ معلومات اور چیزیں میسر آسکتی ہیں جو کسی زمانے میں قابل تصور نہیں تھا۔ اسی طرح انٹرنیٹ بھی زندگی کا حصہ بن چکا ہے، اور یہ جہاں انٹرٹینمنٹ ، کمائی، اور معلومات اور تعلیم وتعلم کا اہم ذریعہ ہے وہاں کفر، الحاد، بے حیائی اور منکرات کا بھی اہم ذریعہ ہے، تربیت کے ساتھ اگر جدید معلوماتی ذرائع و سہولیات نسل نو کو مہیا کیا جائے تو یہ ذرائع ملک وملت کی ترقی کی ضمانت بن جاتے ہیں لیکن یہی چیزیں بغیر کسی علم وآگاہی اور تربیت کے فراہم کی جائیں تو عقیدہ اور ایمان کی تباہی کے ساتھ ساتھ خاندانی اور معاشرتی تباہ کاریوں کا سبب بن جاتی ہیں۔ چونکہ آئی سی ٹی کی وجہ سے مشرق اور مغرب میں فاصلے ختم ہوچکے ہیں، اور گھروں کی چاردیواری کا تقدس پامال ہوچکا ہے، شیطانی اور استعماری قوتیں ماضی کی نسبت بآسانی اپنے مقاصد کو حاصل کررہی ہیں، ایسی صورت حال میں اگر احساس ذمہ داری کرتے ہوئے نئی نسل کی ہمہ جہت تربیت نہ کی جائے تو نتیجہ نہایت ہی خطرناک برآمد ہوسکتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔
1 تبصرہ
[…] (گذشتہ سے پیوسطہ) […]