زمیں کی خلقت پہلے یا آسمان کی:
اشکال: درج ذیل آیات میں سے پہلی دو آیات کہ رہی ہیں کہ زمین پہلے بنی اور تیسری آیت کہ رہی ہے کہ آسمان پہلے بنا! تو کیا یہ قرآنی آیات میں تضاد نہیں ہے؟؟؟
ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ لَکُمۡ مَّا فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ٭ ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰىہُنَّ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ!(بقرہ:29)
قُل اَئِنَّکُم لَتَکۡفُرُوۡنَ بِالَّذِیۡ خَلَقَ الۡاَرۡضَ فِیۡ یَوۡمَیۡنِ وَ تَجۡعَلُوۡنَ لَہٗۤ اَنۡدَادًا ؕ ذٰلِکَ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ، وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ مِنۡ فَوۡقِہَا وَ بٰرَکَ فِیۡہَا وَ قَدَّرَ فِیۡہَاۤ اَقۡوَاتَہَا فِیۡۤ اَرۡبَعَۃِ اَیَّامٍ ؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِیۡنَ، ثُمَّ اسۡتَوٰۤی اِلَی السَّمَآءِ وَ ہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَ لِلۡاَرۡضِ ائۡتِیَا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا ؕ قَالَتَاۤ اَتَیۡنَا طَآئِعِیۡنَ!(فصلت9-11) ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ بَنٰہَا!رَفَعَ سَمۡکَہَا فَسَوّٰىہَا!…..وَ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِکَ دَحٰىہَا!(نازعات27-30)
جواب: مدثر عباس قائمی نظرثانی: غلام رسول وَلایتی
مذکورہ بالا آیات (Verses) میں سے دو آیات میں لفظِ "ثمّ” استعمال ہوا ہے جبکہ تیسری آیت میں "بعد” کا لفظ آیا ہے اور ان آیات میں تضاد (Contradiction) کا وجود اس فرض پر موقوف ہے کہ یہاں "ثمّ” اور "بعد” کے الفاظ "فاصلۂِ زمانی” (Temporal Distance) کے معنی میں ہوں مگر جب ہم کلامِ عرب اور خصوصاً قرآنِ مجید کی دوسری ان آیات پر نظر ڈالتے ہیں کہ جن میں "ثمّ” اور "بعد” کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ دو لفظ فقط مہلت، فاصلے اور ترتیبِ زمانی (Chronological Order) کے معنی میں ہی استعمال نہیں ہوتے بلکہ ان کے اور بھی بہت سے معانی (Meanings) ہیں، خصوصاً "ثمّ” تو ایک کثیر جہتی اور کثیر المعانی لفظ (Multidimensional and Polysemous word) ہے اور یہ درج ذیل معانی میں استعمال ہو سکتا ہے؛
۱۔ "واؤ” کے معنی میں یعنی یہ مطلق جمع اور جوڑنے (Conjunction) کے لئے آتا ہے، اپنے بعد والے مطلب کو اپنے سے پہلے والے مطلب کے ساتھ جوڑتا ہے۔
۲۔ "فاء” کے معنی میں آتا ہے اور اس صورت میں یہ ترتیبِ بیانی و ذکری (Narrative Order) کے لئے ہوتا ہے یعنی متکلم (Speaker) گویا زبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہے کہ "اب جبکہ تم نے یہ بات سُن لی اب یہ بھی سنو”، یہاں بات کرنے والا اپنی بات کی وضاحت کے لئے یا بات کو ایک خاص انداز میں پہنچانے کے لئے چیزوں کو ایک ترتیب میں لا رہا ہوتا ہے، یہ ترتیب ضروری نہیں کہ وقت کے مطابق (Chronological) ہو۔
۳۔ "فاء” کے معنی میں ہوتا ہے لیکن اس وقت ترتیبِ رتبی (Hierarchical Order) کے لئے آتا ہے یعنی پہلے والی بات اہم تھی اس کو پہلے ذکر کیا جبکہ بعد والی بات اس کی نسبت زیادہ اہم نہیں تھی اسے بعد میں بیان کر دیا اور پھر یہ اہمیت بھی نسبی و اضافی (Relative) ہوتی ہے، ہو سکتا ہے ایک بات خود متکلم کے لئے اہمیت کی حامل ہو لہذا پہلے بیان کر رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ متکلم کے نزدیک دونوں باتیں برابر ہوں اور کسی کو کسی پر ترجیح (Preference) نہ ہو، فقط مخاطبین کی ذہنیت و ذوق (Audience Psychology) یعنی چونکہ مخاطبین ان دو باتوں میں سے ایک کو دوسری کی نسبت زیادہ با اہمیت سمجھتے ہیں، کی رعایت کرتے ہوئے مرتباً بیان کر دے۔
اور ان معانی کی مثالیں عربی کلام اور خود قرآن کریم میں بہت ساری ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
فصیح عربی کلام سے نظائر (Examples from Eloquent Arabic Literature):
سَأَلْتُ رَبِیعَةَ مَنْ خَیْر
أَبًا ثُمَّ أُمًّاؕ ؟ فَقَالَتْ: لِمَهْ؟
“میں نے ربیعہ سے پوچھا کہ: ماں بہتر ہے یا باپ؟
وہ بولی: یہ کیسا سوال ہے؟ — دونوں ہی تو عظیم ہیں!”
اب یہاں "ثمّ” کا ترتیبِ زمانی کے علاوہ معانی میں ہونا بالکل واضح ہے، اس لیے کہ مقامِ انتخاب (Context of Choice/Selection Scenario) میں "ثمّ” کو وقفہ (Pause/Interval) کے معنی میں لینا ہرگز مناسب نہیں ہے اور ادب کا سر قلم کرنے کے مترادف ہے۔
أنّ من ساد ثمّ ساد ابوہ ثم ّقد ساد قبل ذلک جد ّہ
حسبِ سابق یہاں بھی بات بہت واضح و آشکار ہے اس لیے کہ شعر کی لڑی میں پروئے گئے الفاظ کی ترتیب (Syntactical Order) کو دیکھتے ہوئے "ثمّ” کو کسی ترتیب کے معنی میں نہیں لیا جا سکتا ورنہ الفاظ کی ترتیب کو الٹنا ہو گا۔
قرآن کریم سے نظائر (Quranic Examples):
«وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا یَوۡمُ الدِّیۡنِ ،
ثُمَّ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا یَوۡمُ الدِّیۡنِ »(انفطار 17-18)
ان دونوں آیات میں ایک ہی مطلب کو بیان کیا گیا ہے دوسری آیت میں بعینہٖ وہی الفاظ اور وہی مفہوم (Concept) ہے جو کہ پہلی آیت میں ہے لیکن دونوں آیتوں کے درمیان لفظِ "ثمّ” کو لایا گیا ہے اب ایسے میں کون تصور کر سکتا ہے کہ یہاں "ثمّ” کو زمانی فاصلے (Temporal Distance) کے بیان کے لئے لایا گیا ہے۔
«خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا» [الزمر: 6]
چونکہ بنی آدم کی تخلیق فی الواقع (In Reality) جناب حوا کے بعد ہوئی ہے لہذا حتماً یہاں "ثمّ” بمعنی "واؤ” (Conjunction) آیا ہے اور جب واؤ کے معنی میں ہے تو ترتیبِ زمانی کیا یہ کسی قسم کی ترتیب پر دلالت نہیں کر رہا، لیکن اگر ترتیب مراد لی بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ ترتیبِ بیانی و اخباری (Informational Sequence) ہو گی، اور یہاں "ثم” کے "واؤ” کے معنی میں ہونے پر اور آیات بھی دلالت کر رہی ہیں؛
«یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً»(النساء:1)
«ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا لِیَسۡکُنَ اِلَیۡہَا»(اعراف:189)
ان آیات میں اسی گزشتہ آیت والے مفہوم کو بیان کیا جا رہا ہے لیکن ان میں "ثم” کی جگہ لفظ "واؤ” کو لایا گیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں "ثم” بھی اسی "واؤ” کے معنی میں ہے، اس لیے کہ یفسّر بعضُ القرآن بعضَه (Intertextuality/One part of the Quran explains the other)؛
«وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیۡ مُسۡتَقِیۡمًا فَاتَّبِعُوۡہُ ۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمۡ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ ؕ ذٰلِکُمۡ وَصّٰکُمۡ بِہٖ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ؛
ثُمَّ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ تَمَامًا عَلَی الَّذِیۡۤ اَحۡسَنَ وَ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لَّعَلَّہُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّہِمۡ یُؤۡمِنُوۡنَ»(انعام:153-54)
ان آیات میں خدا امتِ محمدی کے لئے کچھ احکام بیان کرنے کے بعد فرما رہا ہے "ثُمَّ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ”، یہاں پر اگر "ثمّ” سے زمانی فاصلہ مراد لیا جائے تو لازم آئے گا (It would imply) کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کتاب اس قرآن کے بعد نازل ہوئی حالانکہ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے صدیوں پہلے گزر چکے تھے لہذا یہاں "ثمّ” کو حداکثر ترتیبِ بیانی (Narrative Sequence) کے طور پر لیا جائے گا۔
«الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیرٍ»(ھود:1)
اس آیت میں باری تعالیٰ اس قرآن کی صفات (Attributes) اور اس کے بارے حقائق (Facts) کو بیان کر رہا ہے کہ "قرآن کریم کی آیات محکم و مضبوط ہیں ان میں کسی قسم کی کوئی کمزوری نہیں اور انھیں کھول کر بیان کیا گیا ہے”۔
اب ایسی صورت میں اس آیت میں موجود "ثمّ” کو کسی صورت ترتیب کے لئے لینا معقول (Rational) نہ ہو گا کیونکہ یہ قبل و بعد (Precedence and Succession) کا مورد ہی نہیں ہے۔
«وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیۡنَا مَرۡجِعُہُمۡ ثُمَّ اللّٰہُ شَہِیۡدٌ عَلٰی مَا یَفۡعَلُوۡنَ»(یونس:46)
اس آیت میں خدا ایک واقعیت (Reality) کو بیان کر رہا ہے کہ اے رسول ہم نے ان کافروں کے لئے جس عذاب کا وعدہ کیا ہے وہ عذاب ہم انھیں ضرور دیں گے اب چاہے آپ کی موجودگی میں دے دیں یا پھر آپ کے اس دنیا سے ظاہراً رخصت ہو جانے کے بعد دیں بہرحال ہم ان کے تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں ان کو ان کے کیے کا بدلہ ضرور چکانا ہو گا۔ اب یہاں کیسے "ثم” کو ترتیب کے لئے لیا جا سکتا ہے جبکہ "ثمّ” کے بعد کوئی ایسی بات بیان نہیں ہو رہی کہ جس سے "ثمّ” کے زمانی ہونے کا شائبہ بھی پیدا ہو سکے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات ہیں جن میں لفظ "ثمّ” کسی زمانی وقفے (Chronological Gap) کو بیان کرنے کے لئے نہیں آیا بلکہ اس کے علاوہ معانی کے لئے استعمال ہوا ہے، خصوصاً وہ آیات جن میں "ثمّ” کے ساتھ ہی لفظ "بعد” بھی استعمال ہوا ہے؛
جیسے: «ثُمَّ بَعَثۡنٰکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ،
«ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً»
اب ان آیات اور ان جیسی دوسری کافی ساری آیات "جن میں ثم کے ساتھ لفظ بعد بھی استعمال ہوا ہے” سے واضح پتہ چل رہا ہے کہ یہاں "ثمّ” کسی وقفہ کو بیان نہیں کر رہا بلکہ فقط واؤ وغیرہ کے معنی میں ہے کیونکہ وقفہ کا معنی تو لفظ "بعد” سے صراحتاً (Explicitly) سمجھ میں آ رہا ہے، علاوہ ازیں ان آیات کا مطمحِ نظر (Scope/Focus) کوئی ایسا مقام نہیں ہے کہ جہاں "بعدیت و وقفہ کے بیان” کو موضوعیت (Subjectivity/Relevance) حاصل ہو اور اسے پرزور طور پر (Emphatically) بیان کرنا مقصود ہو کہ "ثمّ” و "بعد” دونوں کے استعمال کی ضرورت پڑے اور "ثمّ” کو فاصلۂِ زمانی کے معنی میں لینے کی نوبت آن پڑے، (تاکہ بعدیت مزید منقح (Clarified) ہو جائے)۔
اسی طرح لفظ "بعد” بھی بعدیت (Succession) کے علاوہ معانی میں استعمال ہوتا ہے،
جیسے:
«فَمَنۡ یَّہۡدِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اللّٰہِ»
پس اللہ کے سوا اسے کون ہدایت دے گا۔
اس آیت میں "بعد” کا لفظ ظاہراً "سوا اور علاوہ” (Exclusion/Other than) کے معنی میں آیا ہے۔
«وَدَّ کَثِیۡرٌ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ لَوۡ یَرُدُّوۡنَکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِکُمۡ کُفَّارًا ۚۖ حَسَدًا مِّنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡحَقُّ»
اب اس آیت اور اس جیسی کافی آیات میں ظاہراً لفظِ "بعد” کسی زمانی فاصلہ (Temporal Interval) کو بیان کرنے کے لئے نہیں آیا بلکہ "باوجود یہ کہ اور جبکہ” (In spite of/Notwithstanding) کے معنی میں آیا ہے۔
«عُتُلٍّۭ بَعۡدَ ذٰلِکَ زَنِیۡمٍ»
اس آیت میں "بعد” کا لفظ یہ بتانے کے لئے آیا ہے کہ بعد والا جملہ کمتر حیثیت (Inferior Rank/Status) کا ہے۔
لہذا ان آیات کے وہ دو الفاظ ‘جو مذکورہ بالا اعتراض کا اصلی موجب (Primary Cause) بنے’ معنی کے اعتبار سے کافی لچکدار اور جہتیں و پرتیں (Semantic Flexibility and Nuances) رکھتے ہیں، لہذا اتنے سارے معانی کا احتمال (Probability) ہونے کے باوجود کسی ایک معنی کو اٹھا کر اشکال کر دینا عقلمندی کا اچھا ثبوت نہیں ہے۔
لہذا عین ممکن ہے کہ یہاں واقعات کا تسلسل (Continuity of Events) یا ان واقعات سے متعلق انسانی غور و فکر کا سلسلہ و تواتر (Sequence of Thought/Contemplation) مراد ہو، اور پہلو بہ پہلو (Juxtaposed) رکھے ہوئے واقعات کی طرف محض ایک اشارہ ہو اور ان سے یہ مراد نہ ہو کہ وہ یکے بعد دیگرے (Chronologically one after another) وجود میں آئے۔
البتہ تیسری آیت (جس میں "بعد ذلک” کی تعبیر آئی ہے) کے بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے ظاہراً ترتیب سمجھ میں آ رہی ہے اس لیے کہ یہاں پر لفظ "ثمّ” نہیں استعمال ہوا (جو مشترک تھا ترتیبِ زمانی، بیانی اور رتبی کے درمیان)، بلکہ یہاں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے "بعد ذلک” جو کہ "ثمّ” کی نسبت ترتیبِ زمانی میں صریح (Explicit in Chronology) ہے جس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آسمان پہلے وجود میں آیا اور زمین بعد میں بنی، اور یہ بات آج کل کے سائنسی انکشافات (Scientific Discoveries) سے بھی میل کھاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ہم حتمی طور پر (Conclusively) یہ بات نہیں کہتے، کیونکہ "بعد” کے معنی کے بارے درج بالا احتمالات بھی تو موجود ہیں، خصوصاً ممکن ہے "بَعۡدَ” کا لفظ مجازاً (Metaphorically) یہ بتانے کے لیے ہو کہ "بَعْدَ” کے ذکر کے بعد آنے والا جملہ کمتر حیثیت کا ہے۔ جیسے «عُتُلٍّۭ بَعۡدَ ذٰلِکَ زَنِیۡمٍ» (۶۸ قلم: ۱۳) میں ہے۔
اس لیے کہ اس دور کے عرب آسمان کو ایک طرح کی بغیر ستونوں والی چھت قرار دیتے تھے اور حیران تھے کہ اس عجوبہ کو کیسے وجود میں لایا گیا اور یہ بغیر ستونوں کے (Non-columnar suspension) فضا میں کیسے قائم ہے، جبکہ اس کے خلاف وہ زمین کے بارے یہ یقین کیے ہوئے تھے کہ بس زمین تو گویا ٹکی ہوئی (Stationary/Fixed) ہے اور یہ کسی فضا میں معلق نہیں ہے۔
ہماری اس بات (کہ ضروری نہیں ہے کہ یہاں بعد کا لفظ فاصلۂِ زمانی کے لئے ہی آیا ہو) کی تائید سورہ ھود کی دوسری و تیسری آیت سے بھی ہوتی ہے، ارشادِ باری ہے:
«اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّکُمۡ تُوۡقِنُوۡنَ»
«وَ ہُوَ الَّذِیۡ مَدَّ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡہٰرًا ؕ وَ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیۡہَا زَوۡجَیۡنِ اثۡنَیۡنِ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ»
ان آیات میں تقریباً وہی مطلب بیان ہو رہا ہے جو سورۂِ نازعات کی آیات میں ذکر ہوا لیکن یہاں پر "بعد” کے لفظ کے بجائے لفظِ "واؤ” (Conjunction) کو لایا گیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں "بعد ذلک” کے لفظ کو کسی فاصلے اور تاخیر (Delay/Interval) کے معنی کو بیان کرنے لئے نہیں لایا گیا بلکہ مرتبے و حیثیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
ان سب جوابات کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم پر اس قسم کے اشکالات کرنا ہی بے جا ہے، اس لیے کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی جگہ بھی تخلیق کائنات (Cosmogony) کا ذکر طبیعیات (Physics) یا ہیئت (Astronomy) کے علوم سکھانے کے لیے نہیں کیا گیا ہے بلکہ توحید و آخرت (Monotheism and Eschatology) کے عقائد پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہوئے بے شمار دوسرے آثار کی طرح زمین و آسمان کی پیدائش کو بھی غور و فکر (Reflection/Tafakkur) کے لیے پیش فرمایا گیا ہے۔ اس غرض کے لیے یہ بات سرے سے غیر ضروری تھی کہ تخلیقِ آسمان و زمین کی زمانی ترتیب (Chronological Order) بیان کی جاتی اور بتایا جاتا کہ زمین پہلے بنی ہے یا آسمان۔ دونوں میں سے خواہ یہ پہلے بنی ہو یا وہ، بہرحال دونوں ہی اللہ تعالیٰ کے اِلٰہِ واحد ہونے پر گواہ ہیں اور اس امر پر شاہد ہیں کہ ان کے پیدا کرنے والے نے یہ سارا کارخانہ کسی کھلنڈرے کے کھلونے کے طور پر نہیں بنایا ہے۔
اسی لیے قرآن کسی جگہ زمین کی پیدائش کا ذکر پہلے کرتا ہے اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا۔ جہاں انسان کو خدا کی نعمتوں کا احساس دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ زمین کا ذکر پہلے کرتا ہے (Anthropocentric Approach)، کیونکہ وہ انسان سے قریب تر ہے۔ اور جہاں خدا کی عظمت اور اس کے کمالِ قدرت (Omnipotence) کا تصور دلانا مقصود ہوتا ہے وہاں بالعموم وہ آسمانوں کا ذکر پہلے کرتا ہے (Theocentric/Majestic Approach)، کیونکہ چرخِ گردوں کا منظر ہمیشہ سے انسان کے دل پر ہیبت طاری کرتا رہا ہے۔
پس جب بات اس طرح ہے تو قرآن کریم کی تعلیمات پر کسی قسم کا سائنسی اشکال (Scientific Objection) کرنا لایعنی اور بے محل (Irrelevant and Misplaced) ہو گا، لہذا یہ کہنا کہ قرآنی آیات میں خلقتِ زمین و آسمان کی ترتیب کے اعتبار سے تناقض (Contradiction) ہے، موضوعِ قرآن و اسلوبِ قرآن (Subject matter and Stylistics of Quran) سے نابلد ہونے کا نتیجہ ہے۔
دوسرا اگر بذاتِ خود ان آیات کے الفاظ، ترکیب (Syntax)، لب و لہجے (Tone) اور سیاق و سباق (Context) کی طرف توجہ کی جائے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ یہاں ان اشیاء کی اصلِ تخلیق اور قدرتِ خداوندی کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔