ملحد اویس اقبال صاحب: آپ خدا کے وجود پر دلیلِ نظم کیسے قائم کرتے ہیں؟
جواب: غلام رسول وَلایتی
مغربی و اسلامی زاویوں سے برہانِ نظم
یہ بحث اس بنیادی فرق پر روشنی ڈالتی ہے جو برہانِ نظم (Teleological Argument) کے مغربی فہم اور اسلامی فلسفے میں فعل و صنعِ الٰہی کے تصور کے درمیان پایا جاتا ہے۔
۱. مغربی تصورِ برہانِ نظم
مغربی فلسفہ میں جیسا کہ ہیوم اور برٹرنڈ رسل جیسے افراد برہانِ نظم کو یوں سمجھے ہیں کہ چونکہ عالم میں نظم، تناسب اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے، لہٰذا ضرور کوئی ناظم (Designer) ہے جس نے اس نظم کو ترتیب دیا ہے۔یہی تصور خدا کو ایک صنعتگر انسان (human artisan) کے مشابہ مانتا ہےایسا صانع جو کائنات سے باہر کھڑا ہے،خام مواد کو لیتا ہے،اسے ایک خاص منصوبے کے تحت جوڑتا ہے،اور پھر اس منظم کائنات کو وجود میں لاتا ہےبالکل اسی طرح جیسے ساعت ساز (watchmaker) گھڑی تیار کرتا ہے۔
مطہری اس نظریے کوسادهانگارانہ اور عوامی تشبیہ قرار دیتے ہیں۔ان کے مطابق ہیوم اور تمام مغربی فلاسفہ قدیم و جدید، اسی سطحی تصور میں گرفتار رہے ہیں۔یعنی مغربی فلسفہ ہمیشہ خدا کو ایک صانعِ خارجی کے طور پر دیکھتا رہا جو گویا کائنات سے علیحدہ کھڑا ہے،مواد سے کام لیتا ہے،اور ایک بیرونی نظم وضع کرتا ہے۔اس تصور میں خدا انجینئر یا معمار کی مانند ہےایک بیرونی فاعل، جو اپنے مقصد کے حصول کے لیے آلات و وسائل کا محتاج ہے۔مطہری کہتے ہیں کہ یہ تصور بنیادی طور پر بچہ گانہ (infantile) ہے، کیونکہ:
- خالق اور مخلوق جدا نہیں:
اسلامی فلسفے کے مطابق، عالم اپنی ہستی میں خدا سے منقطع نہیں۔خدا صرف آغاز میں بنانے والا نہیں بلکہ ہر آن وجود بخشنے والا ہے۔ - فعلِ الہی ایجاد ہے، نہ کہ صنعت:
خدا اجزاء کو جوڑ کر نہیں بلکہ وجود کو عدم سے عطا کرتا ہے۔تخلیق، ترکیب نہیں بلکہ افاضۂ وجود ہے۔ - نظمِ الہی ذاتی و وجودی ہے:
کائنات کا نظم کسی بیرونی منصوبے یا ساخت کا نتیجہ نہیں،بلکہ ہر شے کی اپنی غایتِ ذاتی اور حرکتِ وجودی کا ظہور ہے۔ہر موجود اپنی فطرت کے اقتضاء سے کمالِ مطلوب کی سمت حرکت کر رہا ہے۔
لہٰذا نظمِ الہی کی نوعیت درونی و تکوینی ہے،نہ کہ قراردادی و صناعی جیسی جو انسان کی صنعت میں پائی جاتی ہے۔کائنات کا نظم تسلسلِ عللِ وجودی اور امکانِ وجود کا واجب الوجود سے اتصال ہے نہ کہ کسی خارجی ڈیزائن کا نتیجہ۔
۴. ہیوم کی آراء اور مطہری کا جواب
ہیوم نے اپنی کتاب Dialogues Concerning Natural Religion میں کہا کہ:
اگر ہم عالم کے نظم سے کسی صانعِ حکیم کا وجود ثابت کریں،تو لازمی طور پر وہ صانع بھی انسانی ذہانت اور تجربے جیسا ہوگا کیونکہ یہ قیاس ہم نے صرف انسانی صنعت کے مشاہدے سے کیا ہے۔ہیوم کے نزدیک، برہانِ نظم ایک ناقص تمثیل ہے،اور چونکہ یہ تمثیل درست نہیں، اس لیے خدا کے وجود پر دلیل بھی باطل ہے۔مگر مطہری اس نکتے سے اتفاق نہیں کرتے کہ نتیجہ انکارِ خدا ہو۔ان کے نزدیک اشکال خدا کے وجود میں نہیں، بلکہ تمثیل کے طرزِ استدلال میں ہے۔
یعنی جب خدا کو انسان کے سانچے میں پیش کیا جائے،تو نتیجہ لازمی طور پر انسانی صفات والا محدود خدا نکلتا ہے،نہ کہ وہ واجب الوجود مطلق جو علتِ حقیقیِ وجودِ عالم ہے۔
اگر ہم صرف ایسے صانع کو ثابت کریں، تو درحقیقت خدا کو ثابت نہیں کیا،بلکہ ایک مخلوق کو جو انسان کے درجے سے کچھ اوپر ہے ثابت کیا ہے۔یہی مطہری کی تنقید کا خلاصہ ہے۔ایسا خدا جو منصوبہ بناتا ہے، سوچتا ہے، مواد سے کام لیتا ہےوہ صانعِ محدود ہے،نہ خالقِ مطلق۔وہ خدا جو فلسفۂ اسلامی میں مانا جاتا ہے،نہ کسی خارجی نظم کا محتاج ہے، نہ کسی غایتِ فاعلی کا طالب۔اس کا فعل اس کی ذات کا ظہور ہے،اور کائنات اس کے فیضِ وجود کا تسلسل۔
حکما و فلاسفہ اسلامی نے کبھی خالق کو صانعِ بشری کے مانند نہیں سمجھا۔مطہری اسی تسلسل میں مغربی برہانِ نظم کی جڑ کاٹتے ہیں مغرب نے خدا کو صانعِ انسانی سمجھ کر کائنات کو ایک کارخانۂ بیرونی مانا،جبکہ حکمتِ اسلامی نے خدا کو منبعِ وجود اور باطنِ عالم کے طور پر دیکھا۔یوں برہانِ نظم، اگر مغربی معنوں میں پیش کیا جائے،تو دراصل خدا کی حقیقت کو تنزل دیتا ہےاور ایک ماورائی، واجب و بسیط خالق کی جگہ ایک ذہین مگر محدود صنعتگر کو سامنے لاتا ہے۔۔۔۔ جاری ہے۔