تحریر: اکبر علی جعفری نظر ثانی: غلام رسول وَلایتی
2۔ نفسیاتی سکون اور ذہنی صحت
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے محض مادی موجود نہیں، بلکہ ایک شعوری اور معنوی مخلوق ہے۔ اس کے اندرکچھ بنیادی سوالات ہمیشہ موجود رہتے ہیں مثلا “میں کون ہوں؟ میں یہاں کیوں ہوں؟ اور میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟”
ایمان کا کردار
ایمان ان سوالات کے لیے ایک جامع اور تسلی بخش جواب فراہم کرتا ہے۔ جب انسان یہ یقین رکھتا ہے کہ کائنات ایک باشعور خالق کی تخلیق ہے، زندگی کا مقصد اخلاقی و روحانی ارتقاء ہے اور موت کے بعد ایک ابدی زندگی موجود ہے، تو اس کے اندر معنی، امید اور اطمینان پیدا ہوتا ہے۔ یہ یقین زندگی کے دکھ اور ناہمواریوں کو بھی قابلِ فہم بنا دیتا ہے، کیونکہ اس کا اعتقاد ہوتا ہے کہ ایک حکیم و کریم ذات پور نظام حیات کو چلا رہا ہے اور وہ اپنی مخلوقات کے لئے بہتر ہی کرتا ہے۔ لہذا اگرچہ ظاہرا دکھ اور مشکل کا سامنا ہے لیکن در حقیقت اسی تکلیف میں بھی حکمت پوشیدہ ہے جو بہت مفید ہے۔ اسی وجہ سے مذہبی افراد میں عمومی طور پر مایوسی، وجودی اضطراب اور خودکشی کی شرح کم دیکھی گئی ہے۔ نفسیاتی تحقیقات کی رپورٹس، اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ مذہبی وابستگی رکھنے والے افراد میں زندگی سے اطمینان، سماجی روابط، اور ذہنی صحت کے پیمانے نمایاں طور پر بہتر ہوتے ہیں۔ یوں ایمان نہ صرف روحانی سہارا ہے بلکہ ایک نفسیاتی توازن کا بنیادی ذریعہ بھی ہے۔
الحاد کے اثرات
اس کے برعکس، الحادیوں کے خیال میں انسان ایک اتفاقی موجود کے طور پر وجود میں آیا ہوتا ہے، جس کی زندگی اور موت کسی بڑے مقصد سے وابستہ نہیں۔ جو ایک اندھی اور غیرشعوری کائنات میں چند لمحوں کے لیے وجود میں آتا ہے اور پھر فنا ہو جاتا ہے۔ اور اس کی زندگی کا کوئی ماورائی مقصد نہیں ہے۔
یوں الحاد کا تصور بظاہر آزادی اور خود مختاری سی پیدا کرتا ہے، لیکن درحقیقت انسان کو معنی، مقصد اور اخلاقی سمت سے محروم کر دیتا ہے، اور یہی محرومی ذہنی اضطراب، مایوسی اور اخلاقی بےسمتی کا سب سے بڑا سبب بن جاتی ہے۔
3۔ معاشرتی استحکام اور تحفظ
ایمان کا اجتماعی اثر
ایمان صرف فرد کی روحانی کیفیت کو مضبوط نہیں کرتا بلکہ معاشرتی نظم کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔ جب ایک معاشرہ خدا، عدل الٰہی اور اخروی حساب پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے افراد اپنے اعمال کے نتائج کے بارے میں اندرونی احساس ذمہ داری رکھتے ہیں۔ یہ احساس قانون یا خوف سزا سے نہیں بلکہ ضمیر اور ایمان کی قوت سے جنم لیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں اعتماد، امانت، انصاف اور ایثار کے اصول پروان چڑھتے ہیں۔ سماجی علوم کی مختلف تحقیقات کے مطابق مذہبی معاشروں میں خاندانی نظام مضبوط، جرائم کی شرح کم، اور اجتماعی تعاون کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔
تاریخی طور پر مذہبی معاشرے ،اخلاقی ضوابط، خاندانی نظام، اور اجتماعی انصاف کے اعتبار سے زیادہ مستحکم رہے ہیں۔
الحاد کا سماجی اثر
الحاد کا سب سے نمایاں اثر معاشرتی سطح پر اخلاقی بنیادوں کی کمزوری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب خدا اور آخرت پر ایمان ختم ہو جاتا ہے تو نیکی اور بدی کے پیمانے انسان کی خواہشات پر منحصر ہو جاتے ہیں۔ اس سے اجتماعی اعتماد، دیانت داری اور انصاف کے اصول متزلزل ہونے لگتے ہیں۔ چونکہ الحاد انسان کو محض مادی مفادات تک محدود کر دیتا ہے، اس لیے معاشرے میں خود غرضی، مقابلہ بازی اور اخلاقی بے حسی فروغ پاتی ہے۔ نتیجتاً خاندانی نظام کمزور، انسانی رشتے مصنوعی اور تعلقات مفاد پر مبنی ہو جاتے ہیں۔ یوں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جو باطن میں روحانی طور پر خالی اور اخلاقی طور پر غیر مستحکم ہوتا ہے۔
پس ایمان انسان کو روحانی سکون، نفسیاتی توازن اور زندگی کا مقصد فراہم کرتا ہے،جبکہ الحاد، اگرچہ بظاہر عقل و آزادی کا داعی ہے، لیکن انسانی زندگی کو بے معنی اور مایوسی، اضطراب اور اخلاقی بے سمتی کا مظہر بنا دیتا ہے۔ لہٰذا، انسانی فطرت، نفسیاتی صحت اور معاشرتی استحکام ، تینوں سطحوں پر ایمان کو الحاد پر نمایاں ترجیح حاصل ہے۔ یہی ترجیح اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایمان نہ صرف مذہبی عقیدہ ہے بلکہ انسانی بقاء اور تہذیبی توازن کی ایک بنیادی ضرورت بھی ہے۔