ملحد اویس اقبال صاحب: آپ خدا کے وجود پر دلیلِ نظم کیسے قائم کرتے ہیں؟
جواب: غلام رسول وَلایتی
ہیوم کا اصل اعتراض
(گذشتہ سے پیوستہ)ہیوم نے اپنی کتاب Dialogues Concerning Natural Religion میں یہ اعتراض اٹھایا کہ کائنات اور انسانی صنعتوں (مثلاً گھڑی یا مکان) کے درمیان کوئی کامل اور جامع مشابہت نہیں۔چونکہ ہمارے پاس نہ کسی دوسرے عالم کا تجربہ ہے، نہ گھڑی ساز کی طرح کسی جہان ساز کو دیکھنے کا موقع، اس لیے ہم تجربے کی بنیاد پر یہ قیاس نہیں کرسکتے کہ جیسے ایک گھڑی کا خالق ہوتا ہے، ویسے ہی کائنات کا بھی کوئی خالق ہوگا۔اس کے نزدیک برہانِ نظم تجربی تمثیل پر قائم ہے، لہٰذا استدلالی وزن نہیں رکھتا۔
اسلامی متون میں ظاہری طور پر اس اعتراض کی تائید
اسلامی فلسفیوں جیسے شہید مطہری نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اگر برہانِ نظم کو صرف ایک تمثیلی (analogical) دلیل کے طور پر لیا جائے، یعنی یہ کہا جائے کہ چونکہ دنیا گھڑی کی طرح منظم ہے، لہٰذا اس کا بھی صانع ہےتو واقعی وہی اعتراضات جو ہیوم کے ہیں وہ یہاں بھی وارد ہوں گے۔لیکن فلسفہ اسلامی میں برہانِ نظم کا مقصد محض تمثیل نہیں، بلکہ یہ عقلِ نظری کا برہان ہے جو نظم اور شعور کے درمیان ملازمتِ عقلی کو ثابت کرتا ہے، نہ کہ محض ظاہری مشابہت کو۔
تمثیلی برہان کا حقیقی پہلو وجہِ شبہ
ہر تمثیل میں وجہِ شبہ (common aspect) بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔اس میں شرط یہ نہیں کہ دو چیزیں ہر پہلو سے ایک جیسی ہوں، بلکہ اتنا کافی ہے کہ ان میں ایک ایسا مشترک وصف پایا جائے جو حکم کی منتقلی کا ذریعہ بن سکے۔مثلاًاگر گھڑی کے اجزاء باہمی ہم آہنگی اور مقصدیت کے ساتھ وقت بتانے کے لیے حرکت کرتے ہیں،اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ہم آہنگی ایک عاقل صانع کی مرہونِ منت ہے،تو جب ہم فطرت میں اسی طرح کی ہم آہنگی، تناسب اور غایت دیکھتے ہیں،تو عقل خود بخود فیصلہ کرتی ہے کہ یہاں بھی کوئی عالم و مدبر کارفرما ہے۔
ہیوم کے اعتراض کا فلسفیانہ جواب
پس ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا گھڑی کے عین مشابہ ہےبلکہ یہ کہ دونوں میں مقصدیت اور نظم مشترک ہے،اور یہی اشتراک اس امر کے لیے کافی ہے کہ جہاں نظم ہو، وہاں علم اور ارادہ بھی ہو۔لہٰذا ہیوم کا اعتراض کہ دنیا گھڑی کی طرح نہیں درحقیقت برہان کے مفہوم کی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ہم ظاہری مشابہت نہیں، بلکہ عقلی ملازمت پر استدلال کرتے ہیں۔
اسلامی منطق کی روشنی میں استدلال کی صحت
منطقِ اسلامی میں تمثیل اسی وقت قابلِ قبول ہوتی ہے جب وجہِ شبہ (مشترک وصف) واضح ہو،اور وہ وصف حکم کی علت میں مؤثر ہو۔یہاں نظم اور غایت ہی وہ وجہِ شبہ ہے جو علم و ارادہ کے وجود پر دلالت کرتی ہے۔اس بنا پر، اگرچہ برہانِ نظم کو تمثیلی انداز میں بیان کیا جائے،تب بھی وہ عقلاً صحیح اور منطقی رہتا ہے۔
پس ہیوم نے یہ سمجھ لیا کہ برہانِ نظم صرف اسی صورت درست ہوسکتا ہے جب دنیا اور مصنوعات میں کامل مشابہت ہو،اور چونکہ ایسا نہیں، لہٰذا استدلال باطل ہے۔لیکن اسلامی فلسفہ کہتا ہے کہ استدلال کی بنیاد مشابہت نہیں،بلکہ نظم اور علم کے درمیان عقلی رابطہ ہے۔جہاں بھی نظم اور غایت موجود ہوں، وہاں علم اور ارادہ بطورِ علت لازماً ہوں گے۔اسی وجہ سے ہیوم کا اعتراض نہ صرف ناقص بلکہ حسی فلسفے کی محدودیت کا مظہر ہے،جبکہ برہانِ نظم عقلِ نظری کی روشنی میں ایک مستحکم عقلی برہان کی حیثیت رکھتا ہے۔
تجربیت پسندوں کا اعتراض
ہیوم اور دوسرے تجربیت پسند فلسفیوں کا برہانِ نظم پر اعتراض دراصل ایک غلط مقدمے پر قائم ہے۔ان کے نزدیک خدا نے پہلے جہان کو خلق کیایعنی مادّہ اور اجزاء کو وجود بخشااور اس کے بعد انہیں منظم کیا، گویا خلقت اور نظم دہی دو الگ فعل ہیں۔یوں وہ خدا کو ایک ایسے ناظم کی صورت میں دیکھتے ہیں جو پہلے مواد تخلیق کرتا ہے،پھر اسے ترتیب دیتا ہے جیسے کوئی انسانی صنعتگر خام مواد لے کر بعد میں اسے ایک منظم صورت دیتا ہے۔یہی وہ تصور ہے جسے فلاسفۂ اسلام تشبیہِ صانعِ بشری کہتے ہیں،اور جسے وہ قطعی طور پر رد کرتے ہیں۔
تصحیحِ فلسفی جعلِ بسیط اور جعلِ مرکّب کا فرق
اسلامی فلسفے میں (ابنِ سینا سے لے کر ملاصدرا اور بعد کے حکما تک) جعل کے دو بنیادی مفہوم بیان کیے گئے ہیں جعلِ مرکّب (ترکیبی ایجاد)یعنی کسی شے کو پہلے اجزاء کی صورت میں وجود دینا،پھر ان اجزاء کو ترتیب دے کر اس میں نظم پیدا کرنا۔مثال کے طور پر ایک معمار اینٹوں کو جوڑ کر ایک منظم عمارت کھڑی کرتا ہے۔
جعلِ بسیط (سادہ و ذاتی ایجاد)
یعنی وجود کو اس درجہ پر پیدا کرنا کہ اس کے اندر نظم، تناسب اور ترکیب،اس کی ذات ہی کا لوازمہ ہو، نہ کہ کوئی بعد میں شامل کی گئی صفت۔اس نوع کے جعل میں نظم کوئی عارضی شے نہیں، بلکہ خود وجود ہی نظم کی عین حقیقت ہے۔
اس فرق کا فلسفیانہ نتیجہ
جب ہم کہتے ہیں خدا نے کائنات کو جعلِ بسیط کے طور پر پیدا کیا،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا انسانی صانع کی طرح نہیں کہ پہلے مادّہ بنائے اور پھر اس میں نظم پیدا کرے۔ بلکہ خدا کی تخلیق میں نظم اور وجود الگ الگ نہیں کائنات کی ہر ہستی اپنی اصل میں ایک منظم و متناسب وجود رکھتی ہے۔ پس خدا کا فعل تدبیرِ بعد از خلق نہیں،بلکہ ایجادِ عالمانہ و ازلی ہے۔یعنی خدا ناظم ہونے میں خالق سے جدا نہیں،بلکہ اس کی خالقیت ہی اس کا نظم آفرین ہونا ہے۔