Table of Contents
ملحد اویس اقبال صاحب: جب خدا موجود ہے تو دنیا میں شر (Evil) کیوں ہے،کیاخداخالق شرہے؟
جواب: غلام رسول وَلایتی
خیر اور شر کی دو اقسام ؛ بالذات (Essential) اور بالعرض (Accidental)
(گذشتہ سے پیوسطہ) آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق خیر (Good) اور شر (Evil) کو فلسفی لحاظ سے دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:
-
بالذات (Intrinsic)
-
بالعرض (Relational)
یہ تقسیم ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ کون سی چیز اپنی ذات میں خیر یا شر ہے (by nature)، اور کون سی کسی دوسری چیز کے لحاظ سے خیر یا شر کہلاتی ہے (by relation)۔
شرّ بالذات (Essential Evil)
شرّ بالذات وہ چیز ہے جو اپنی حقیقت میں خیر سے خالی (Devoid of Goodness) ہو۔ یعنی وہ بذاتِ خود عدمِ خیر (Absence of Good) ہے، نہ کہ کسی دوسرے پہلو سے۔مثلاً موت (Death) شرّ بالذات ہے کیونکہ یہ زندگی (Life) کو ختم کر دیتی ہے۔ بیماری (Illness) شرّ بالذات ہے کیونکہ یہ صحت (Health) اور کمالِ بدن (Perfection of Body) کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ چیزیں کسی بیرونی پہلو سے شر نہیں بلکہ اپنی ذات میں ہی خیر کے فقدان (Lack of Good) کی علامت ہیں۔
شرّ بالعرض (Accidental Evil)
شرّ بالعرض وہ ہے جو اپنی ذات میں خیر (Good) ہو، مگر کسی دوسری چیز کے لیے نقصان دہ (Harmful) یا مانعِ خیر (Obstacle to Good) بن جائے۔ مثلاً بچھو (Scorpion) اپنی ذات میں خیر ہے، کیونکہ وہ ایک زندہ مخلوق (Living Creature) ہے اور اپنی فطری ساخت میں کمال رکھتا ہے۔ لیکن جب وہ کسی کو ڈنک مارتا ہے اور اس سے زندگی یا سلامتی (Life or Safety) کو نقصان پہنچتا ہے، تو اس کا عمل شرّ بالعرض کہلاتا ہے۔ آگ (Fire) خود روشنی (Light) اور حرارت (Heat) کا سرچشمہ ہے — یعنی خیر ہے۔ مگر جب وہ کسی چیز کو جلا دیتی ہے تو اس پہلو سے وہ شرّ بالعرض (Accidental Evil) بن جاتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے: کوئی بھی وجود بذاتِ خود شر نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات اس کے اثرات (Effects) کسی دوسرے وجود کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔
خیر بالذات (Essential Good)
خیر بالذات وہ ہے جو اپنی حقیقت میں کمالی اور وجودی (Perfect and Real) ہو۔ یعنی وہ چیز جو خیر بذاتِ خود (Good in Itself) ہو، کسی دوسری چیز کے لحاظ سے نہیں۔ مثلاً علم (Knowledge)، ایمان (Faith) اور حیات (Life) یہ سب خیر بالذات (Essential Goods) ہیں کیونکہ یہ کمالِ وجود (Perfections of Being) ہیں۔
خیر بالعرض (Accidental Good)
خیر بالعرض وہ ہے جو بذاتِ خود خیر نہیں ہوتی، مگر کسی شرّ کو ختم (Removal of Evil) کر کے خیر بن جاتی ہے۔ مثلاً ظالم کی موت (Death of a Tyrant) اور باطل نظام کا زوال (Fall of a Corrupt System)۔ یہ دونوں چیزیں اپنے وجودی پہلو سے خیر نہیں، کیونکہ موت عدمِ حیات ہے۔ مگر چونکہ ان کے ذریعے ایک بڑے شر (Greater Evil) یعنی ظلم (Oppression) یا باطل (Falsehood) کا خاتمہ ہوتا ہے، اس لیے یہ خیر بالعرض (Accidental Good) کہلاتی ہیں۔ یوں اگر ہم کہیں کہ “ظالم کی موت خیر ہے”، تو یہ خیر بالذات نہیں بلکہ خیر بالعرض ہے۔ کیونکہ موت بذاتِ خود شرّ بالذات ہے، مگر جب وہ شر کو ختم کرے تو بالعرض خیر بن جاتی ہے۔
پس اس تقسیم سے ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ کائنات میں کوئی شے مطلق شر (Absolute Evil) نہیں۔ زیادہ تر چیزیں شر یا خیر اس لیے کہلاتی ہیں کہ وہ کسی دوسری حقیقت کے ساتھ نسبت (Relation) رکھتی ہیں۔ بعض چیزیں اپنے پہلو سے خیر بالذات ہیں، بعض شرّ بالعرض۔ مطلق شر (Pure Evil) ممکن نہیں، کیونکہ خدا (God) خود خیرِ مطلق (Absolute Good) ہے، اور اس سے صادر ہونے والی ہر شے بھی کسی نہ کسی درجے میں خیر (Goodness) رکھتی ہے۔ اگر کوئی شے بالکل خیر سے خالی ہو، تو وہ فیضِ الٰہی (Divine Emanation) سے منقطع ہو جاتی ہے اور جو چیز فیضِ الٰہی سے محروم ہو، وہ وجود ہی نہیں رکھتی (Cannot Exist)۔ پس شرّ بالذات صرف کسی جزوی یا عدَمی جہت (Partial / Privative Aspect) میں پایا جاتا ہے، جبکہ مطلق شر (Absolute Evil) وجودی طور پر ناممکن (Impossible) ہے۔