ملحد اویس اقبال صاحب: آپ خدا کے وجود پر دلیلِ نظم کیسے قائم کرتے ہیں؟
جواب: غلام رسول وَلایتی
برہانِ نظم ایک عقلی برہان، نہ تجربی نہ تمثیلی
(گذشتہ پیوستہ) یہ بحث اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ برہانِ نظم یعنی کائنات کے نظم و توازن سے خالق کے وجود پر استدلال درحقیقت عقلی برہان ہے،نہ کہ تجربی (empirical) اور نہ ہی تمثیلی (analogical)۔
۱. برہانِ نظم تجربی نہیں
تجربی برہان وہ ہوتا ہے جو مشاہدے اور حسی تجربے سے نتیجہ اخذ کرتا ہے،جیسے علومِ طبیعیہ میں ہوتا ہے۔ایسے دلائل میں ایک لازمی شرط یہ ہوتی ہے کہ دو چیزوں کے درمیان مشابہت (complete similarity) تام ہو،تاکہ ایک کے مشاہدے سے دوسرے کے بارے میں قیاس کیا جا سکے۔مگر برہانِ نظم اس نوع کا نہیں۔یہ کسی ایسی مشابہت یا تجربہ پر موقوف نہیں جو عالم اور انسانی مصنوعات میں ہو۔یہ کہنا کہ عالم منظم ہے، لہٰذا اس کا خالق بھی ایسا ہی صانع ہوگا جیسے انسان۔ یہ قیاسِ تجربی ہے، جو برہانِ نظم کی حقیقت نہیں۔
۲. برہانِ نظم تمثیلی بھی نہیں
برہانِ تمثیل (analogical argument) کا مطلب یہ ہے کہ اگر دو چیزیں بعض اوصاف میں مشابہ ہوں،تو ان میں کسی اور وصف میں بھی شباہت فرض کی جائے۔
مثلاً چونکہ گھڑی منظم ہے اور سازندہ رکھتی ہے، اور عالم بھی منظم ہے،لہٰذا عالم کا بھی کوئی سازندہ ہونا چاہیے۔یہ تمثیل صرف ظاہری مشابہت پر مبنی ہے،مگر برہانِ نظم کا دارومدار شباہت پر نہیں،بلکہ ملازمتِ عقلی پر ہےیعنی عقل یہ سمجھتی ہے کہ جہاں نظم و غایت ہو، وہاں علم و شعور لازم ہیں۔
۳. فلسفۂ اسلامی میں برہانِ نظم کی حقیقت
فلسفۂ اسلامی کے مطابق،عقل دو چیزوں کے درمیان ایک لازم و ملزوم تعلق کو درک کرتی ہےایک طرف نظم، تناسب، اور غایتمندی ہے،دوسری طرف علم و شعور کی موجودگی۔چنانچہ عقل یہ حکم کرتی ہے کہ جہاں شعوری اور مقصدی نظم پایا جائے، وہاں ایک فاعلِ عاقل کا ہونا ضروری ہے۔اب چونکہ عالمِ وجود میں ہم ایک ہمہگیر، دقیق اور ہمپیوند نظم دیکھتے ہیں،عقل بدیہی طور پر یہ نتیجہ نکالتی ہے کہ اس کے پیچھےعلمِ مطلق اور شعورِ کامل کارفرما ہے۔لہٰذابرہانِ نظم اگرچہ آغاز مشاہدے سے کرتا ہے، مگر اس کا استنتاج (conclusion) تجربے سے نہیں بلکہ عقل سے حاصل ہوتا ہےیعنی یہ برہان تجربے سے نہیں، بلکہ عقل کے حکم سے خدا کے وجود تک پہنچتا ہے۔
۴. ملازمتِ عقلی بمقابلہ تشبیہِ صناعی
برہانِ نظم میں تجربہ شرط نہیں، اور نظمِ طبیعی کو صنعِ بشری سے تشبیہ دینا صرف برہان کو قریب الفہم بناتا ہے، مضبوط نہیں کرتا۔یعنی انسانی صنعتوں کی مثالیں صرف تفہیم و تعلیم کے لیے ہیں،نہ کہ استدلال کے لیے۔جب ہم کہتے ہیں کہ جب ایک گھڑی گھڑی ساز کے بغیر نہیں بن سکتی، تو یہ عالم کیسے بن گیا؟یہ مثال عقل کو مدد دینے کے لیے ہے،مگر برہان کا اصل مدار اس مثال پر نہیں۔عقل کا اصل استدلال اس بات پر ہے کہ نظمِ آگاهانه ہمیشہ علم و ارادہ کا تقاضا کرتا ہے۔
۵. قیاسِ اولویت (Argument a Fortiori)
مصنف ایک اہم نکتہ لاتے ہیں جوقیاسِ اولویت کہلاتا ہے، جب کوئی حکم ایک کمزور یا ناقص مثال پر صادق آتا ہےتو وہ اس کی قویتر مثال پر بدرجۂ اولیٰ صادق ہوگا۔یعنی اگر انسانی صنعت جو محدود اور ناقص ہےناظمِ عاقل کے بغیر ممکن نہیں،تو کائنات کا نظم جو کہیں زیادہ کامل، دقیق اور ہمہگیر ہےبدرجۂ اولیٰ ایک علمِ کامل اور شعورِ مطلق کا محتاج ہوگا۔یوں صنعتِ انسانی فردِ ضعیف ہے،اور نظامِ طبیعی فردِ قوی۔پس جو بات کم درجے میں درست ہے،وہ اعلیٰ درجے میں بدرجۂ اولیٰ درست ہوگی۔
۶. برہانِ نظم برہانِ عقلی، تائیدِ تجربی کے ساتھ
آخر میں مصنف یہ نتیجہ دیتے ہیں کہ انسانی مصنوعات کی مثالیں برہان کو سمجھانے اور تقویت دینے کے لیے ہیں،نہ کہ تمثیلی طریقے سے برہان قائم کرنے کے لیے۔یعنی برہانِ نظم کی اصل بنیاد عقل کی درکِ ملازمت ہےکہ نظمِ غایتمند بلا علم ممکن نہیں۔اور اس عقلانی درک کو مشاہدۂ تجربی صرف تقویت دیتا ہے، بنیاد نہیں۔
۷. مغربی تصور سے فرق
ہیوم اور اکثر مغربی فلاسفہ نے برہانِ نظم کومحض تجربی و تمثیلی سمجھایعنی چونکہ انسانی مصنوعات منظم ہیں،لہٰذا عالم بھی ویسے ہی منظم ہے۔مگر اسلامی حکماء کے نزدیک یہ تصور سطحی ہے۔نظمِ عالم نظمِ صنعتی نہیں، بلکہ نظمِ ذاتی و تکوینی ہے۔یہ نظم براہِ راست علمِ الہی پر دلالت کرتا ہے،نہ کہ کسی بیرونی مشابہت پر۔۔۔ جاری ہے