Table of Contents
ملحد اویس اقبال صاحب: جب خدا موجود ہے تو دنیا میں شر (Evil) کیوں ہے،کیاخداخالق شرہے؟
جواب: غلام رسول وَلایتی
خیر اور شر ہمیشہ نسبتی تصورات (Relative Concepts) ہیں۔ کسی چیز کو اچھا (Good) یا بُرا (Evil) کہنا اس پر منحصر ہے کہ ہم اسے کس زاویے (Perspective)، کس جہت (Dimension) یا کس سطح (Level) سے دیکھتے ہیں۔ مثلاً آگ (Fire) انسان کے لیے نقصان دہ ہے، مگر پکانے اور حرارت کے لیے مفید ہے۔ اسی طرح موت (Death) فرد کے لیے دکھ ہے، مگر نوعِ انسانی کے توازن (Cosmic Balance) کے لیے ضروری خیر ہے۔
اگر ہم تمام ممکن موجودات (Possible Existents) کو خیر و شر کے لحاظ سے تقسیم کریں تو وہ پانچ اقسام میں آتے ہیں:
1. خیرِ محض (Pure Good)
یہ وہ موجودات ہیں جن میں کسی پہلو سے بھی شر (Evil) نہیں پایا جاتا۔ یہ خیرِ مطلق (Absolute Good) اور نورِ محض (Pure Light) ہیں۔ ان کا وجود کامل (Perfect)، مجرد (Immaterial) اور غیر مادی (Non-Physical) ہے، یعنی ان میں فنا، نقص، یا تزاحم (Conflict) کا کوئی امکان نہیں۔ مثلاً عقولِ مجردہ (Intellects)، ملائکہ (Angels)۔ یہ تمام خیرِ محض (Pure Good) ہیں کیونکہ ان کے وجود میں کسی قسم کا شر نہیں۔
2. خیرِ کثیر و شرِ قلیل (Predominant Good, Minimal Evil)
یہ وہ چیزیں ہیں جن میں خیر (Good) غالب اور شر (Evil) بہت کم ہے۔ شر ان میں صرف ایک عارضی یا ثانوی پہلو (Accidental Aspect) کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی عالمِ طبیعت ( Material Universe) ہے۔ دنیا میں نظم، حسن، عقل، اخلاق، اور زندگی کے بے شمار خیرات (Blessings) پائے جاتے ہیں، مگر ساتھ ہی بیماری (Disease)، موت (Death)، زلزلے (Earthquakes)، اور دکھ (Suffering) جیسے پہلو بھی موجود ہیں۔ چونکہ مادہ (Matter) اپنی فطرت میں محدود اور متغیر ہے، اس لیے اس میں شر کے امکانات لازمی ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ یہ دنیا عالمِ احسن (Best of Possible Worlds) ہے۔ یعنی مجموعی طور پر خیر زیادہ، اور شر محض جزوی ہے۔
3. خیر و شر مساوی (Equal Good and Evil)
یہ ایک فرضی (Hypothetical) تصور ہے، جس میں خیر اور شر بالکل برابر (Equal) ہوں۔ یعنی جتنا فائدہ ہو، اتنا ہی نقصان۔ مگر ایسی چیز خارجی حقیقت (External Reality) میں موجود نہیں، کیونکہ اگر خیر و شر بالکل برابر ہوں، تو نہ وجود کی ترجیح ہوگی نہ عدم کی اور یہ حالت ترجیح بلا مرجح (Preference Without Cause) کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہ صرف ذہنی فرض (Mental Abstraction) ہے، کوئی حقیقی وجود نہیں۔
4. خیرِ قلیل و شرِ کثیر (Predominant Evil, Minimal Good)
یہ وہ چیز ہے جس میں شر (Evil) زیادہ اور خیر (Good) بہت کم ہو۔ ایسی چیز کا وجود عقلاً محال (Logically Impossible) ہے، کیونکہ خدا (God) جو کہ خیرِ محض (Pure Goodness) ہے، کبھی ایسی تخلیق نہیں کرے گا جو زیادہ شر اور کم خیر رکھتی ہو۔ ہر وجود بہرحال خیر کا ظہور (Manifestation of Good) ہے۔ اگر کسی چیز میں خیر بہت کم ہو جائے تو اس کے وجود کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے یہ قسم ممکن (Possible) نہیں بلکہ محال (Impossible) ہے۔
5. شرِّ محض (Pure Evil)
یہ وہ تصور ہے جس میں کوئی بھی پہلو خیر کا نہ ہو، یعنی مطلق شر (Absolute Evil)۔ مگر یہ بھی ناممکن (Impossible) ہے، کیونکہ شرِّ محض دراصل عدمِ محض (Absolute Non-Being) ہے، اور عدم وجود نہیں رکھتا۔
شر عدَمی ہے، وجودی نہیں (Evil is Privative, not Substantive)
فلسفۂ الٰہیات کے مطابق شر (Evil) کوئی مستقل وجود (Independent Existence) نہیں رکھتا، بلکہ یہ صرف خیر (Good) کے فقدان (Absence) یا کمی (Privation) کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں، شر کوئی وجودی حقیقت (Ontological Reality) نہیں، بلکہ عدمی کیفیت (Privative Condition) ہے۔ مثلاً:
- نابینائی (Blindness) شر ہے کیونکہ وہ بینائی (Sight) جو کہ خیر ہے کی عدم (Lack) ہے۔
- جہالت (Ignorance) شر ہے کیونکہ وہ علم (Knowledge) کی غیر موجودگی ہے۔
- فقر (Poverty) شر ہے کیونکہ وہ کفایت یا دولت (Sufficiency / Wealth) کی کمی ہے۔
- موت (Death) شر ہے کیونکہ وہ حیات (Life) کے زوال (Cessation) کا دوسرا رخ ہے۔
لہٰذا شر کوئی مخلوق (Created Entity) نہیں جسے خدا نے پیدا کیا ہو، بلکہ یہ صرف وہاں ظاہر ہوتا ہے جہاں کوئی وجود اپنی فطری محدودیت (Natural Limitation) کی وجہ سے کسی کمال (Perfection) سے محروم ہو جاتا ہے۔ چونکہ خدا (God) خالقِ وجود (Creator of Being) ہے اور وجود بذاتِ خود خیر ہے (Being is Goodness Itself)، اس لیے خدا شر کا خالق نہیں (Not the Creator of Evil)۔ شر صرف کمی، نقصان، یا محرومیت (Deficiency / Deprivation) کا دوسرا نام ہے یعنی وہ خلا (Void) جو محدود مخلوق کے اندر خیر کے مکمل ظہور سے پہلے باقی رہ جاتا ہے۔
شر کی نسبت خدا سے (Relation of Evil to God)
خدا تمام موجودات کا خالق (Creator of All Existents) ہے، لیکن چونکہ شر بذاتِ خود کوئی وجودی حقیقت (Ontological Reality) نہیں، بلکہ خیر کی عدم ہے، اس لیے وہ براہِ راست خدا کی تخلیق نہیں (Not Directly Created by God)۔ شر دراصل محدود مخلوقات (Finite Beings) کے وجود کا لازمہ (Necessary Consequence) ہے۔ جہاں کہیں وجود محدود (Limited Being) ہوگا، وہاں کسی درجے میں خیر کا فقدان (Lack of Goodness) بھی ہوگا اور یہی فقدان ہمیں شر (Evil) محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر:
- آگ (Fire) بذاتِ خود خیر ہے، کیونکہ وہ حرارت (Heat)، روشنی (Light)، اور پکانے (Cooking) کے کام آتی ہے۔لیکن اسی آگ میں سوزانندگی (Burning Power) بھی ہے، جو بعض حالات میں نقصان (Harm) کا باعث بنتی ہے۔ یہ نقصان خدا کی طرف سے نہیں، بلکہ آگ کے اپنے وجودی نظام (Ontological Structure) کا لازمی پہلو ہے۔
- شکار کرنے والا جانور (Predator) دوسرے کے لیے شر ہے، مگر یہی عمل فطرت کے توازن (Ecological Balance) اور حیاتی نظام کی بقاء (Sustainability of Life) کے لیے ضروری ہے۔
یوں شر بظاہر کسی محدود سطح پر دکھائی دیتا ہے، مگر کائناتی سطح (Cosmic Scale) پر وہ بھی نظم و خیر (Order and Good) کا حصہ ہے۔
نظامِ احسن (Best Possible World)
فلاسفۂ الٰہیات کا کہنا ہے کہ ممکنہ تمام عوالم (Possible Worlds) میں یہ عالمِ موجود (Actual World) سب سے بہترین (Best) اور کامل ترین (Most Perfect) ہے۔ اگر خدا ایسا نظام بناتا جس میں بالکل کوئی شر نہ ہوتا (No Evil at All)، تو بہت سے خیرات (Goods) بھی ختم ہو جاتے۔ خیر اور شر ایک دوسرے کے لازم و ملزوم (Interdependent) ہیں۔ اکثر بڑا خیر (Greater Good) کسی جزوی شر (Minor Evil) اور عرضی شر (Accidental) کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔
خدا نے دو امکانات میں سے انتخاب کیا:
-
ایک ایسا عالم جو بالکل نہ ہو (Non-Existent)، جو خود ایک عظیم شر ہوتا، کیونکہ وجود خیر ہے (Existence is Goodness)۔
-
دوسرا ایسا عالم جو موجود ہو (Existing World)، جس میں بے شمار خیرات (Abundant Goods) ہوں اور شرور محدود (Limited Evils)۔
یہی نظامِ احسن (Best of All Possible Worlds) ہے، جو خدا کی حکمت (Divine Wisdom) اور عدل (Justice) کا مظہر ہے۔
شر کی افادیت (Purpose of Evil)
اگر درد (Pain) نہ ہوتا، تو انسان کبھی بیماری (Disease) کا شعور حاصل نہ کرتا اور علاج (Cure) کی فکر نہ کرتا۔ اگر موت (Death) نہ ہوتی، تو نسلوں کی تجدید (Renewal of Generations) اور سماجی توازن (Social Balance) ممکن نہ رہتا۔ اگر مشکلات (Difficulties) اور رقابتیں (Competitions) نہ ہوتیں، تو انسانی صلاحیتیں (Potentialities) کبھی بیدار نہ ہوتیں۔
پس عرضی شر میں بھی ایک نسبی حقیقت (Relative Reality) ہے۔ جو ایک فرد کے لیے دکھ ہو سکتا ہے، وہ کسی بڑے نظام کے لیے خیر (Good) بن سکتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو شر بذاتِ خود شر نہیں، بلکہ خیر کے ظہور کا ایک ذریعہ (Instrument for the Manifestation of Good) ہے۔۔۔ جاری ہے۔