مقدمہ:
تاریخِ انسانی میں عالمِ اسلام کی علمی خدمات ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جب یورپ تاریکی کے دور (Dark Ages) میں گم تھا، اسلامی دنیا میں علم و تحقیق کے چراغ روشن تھے۔ مسلم سائنسدانوں، فلسفیوں اور اسکالروں نے سائنس، طب، فلکیات، ریاضی، کیمیا، اور دیگر علوم میں بے مثال خدمات انجام دیں۔
عباسی دور میں بیت الحکمت جیسے عظیم علمی مراکز قائم کیے گئے، جہاں دنیا بھر سے علوم کو محفوظ، ترجمہ اور ترقی دی گئی۔ ابن سینا (طبی سائنس)، الرازی (کیمیا و طب)، الخوارزمی (ریاضی و الجبرا)، البیرونی (فلکیات و جغرافیہ) اور ابن الہیثم (طبیعیات و بصریات) جیسے مسلم سائنسدانوں نے وہ نظریات پیش کیے جن پر بعد میں جدید سائنسی ترقی کی بنیاد رکھی گئی۔
مسلمانوں نے نہ صرف علمی کتابیں تصنیف کیں بلکہ علمی ادارے اور کتب خانے بھی قائم کیے، جہاں دنیا بھر کے نایاب نسخے محفوظ کیے گئے۔ اندلس (اسپین) میں قرطبہ، غرناطہ اور بغداد میں موجود لائبریریاں علم کے مراکز تھیں، جہاں سے یورپ نے روشنی حاصل کی۔
یہ علمی میراث آج بھی جدید سائنسی ترقی کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔ اسلامی دانشوروں کی خدمات نے ثابت کیا کہ علم کسی خاص قوم یا خطے تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے۔ عالمِ اسلام کی علمی تاریخ آج بھی تحقیق و جستجو کی راہیں متعین کرنے کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
ڈاکٹر شوقی ابو خلیل اپنی کتاب الحضارۃ الغربیہ میں لکھتے ہیں:
عصر وسطی میں پورا یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا سوائے ان علاقوں کے جہاں اسلام کی روشنی کی پھیلی۔ جیسے الاندلس (Al-Andalus)، صقلیہ سسلی (Sicily) جنوبی اٹلی۔ چنانچہ یورپ میں علمی روشنی وہاں سے پھیلی جہاں عربوں کا تمدن پہنچا۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
لیکن یورپ والوں کا یہ استفادہ ناقص اور ابتر رہا چونکہ انہوں نے صرف اسلامی تمدن کے مادی پہلو کو لیا اور روحانی و انسانی پہلو اور آفاقی فکر کو نظر انداز کیا جو ہمارے تمدن کی اصل روح تھی۔
طلیطلۃ (Toledo)کی درسگاہ
یہ درسگاہ کئی مراحل سے گزری ہے۔ ہر مرحلے میں سینکڑوں کتب اور قلمی نسخوں کا لاطینی میں ترجمہ ہوتا رہا۔
جب سنہ ۱۰۸۵ء میں یہ شہر مسلمانوں سے واپس لیا گیا تو وہاں کے بادشاہ نے اس شہر کے کتب خانوں میں موجود عربی کتب اور قلمی نسخوں کا لاطینی میں ترجمہ کرنے کا حکم دیا۔
چنانچہ صرف قرطبہ کے کتب خانے میں پانچ لاکھ سے زیادہ قلمی نسخے موجود تھے۔ چنانچہ اس وقت کے بادشاہ فونسو نے ترجمہ کرانے کی مہم شروع کی۔ اس کام کے لیے اس نے عربی زبان پر عبور رکھنے والوں کی ایک جماعت تیار کی۔ پھر قشتالی عامی زبان میں ترجمہ کرایا۔ اس کے بعد لاطینی فصیح زبان میں ترجمہ کرایا۔
چنانچہ درج ذیل مشاہیر مترجموں نے ترجمے کی مہم جاری رکھی۔
۱۔یوحنا اشبیلی نے عربی کتب کا قشتالی عامی زبان میں ترجمہ کیا۔
۲۔ ڈومینیکو نے قشتالی سے لاطینی فصیح زبان میں ترجمہ کیا۔
ان کتب میں ابن سینا کی کتب اور دوسری علمی اور فلسفی کتب شامل تھیں۔
۳۔ جیرار کرمونی نے یونانی اور عربی سے ستر سے زائد کتابوں کا ترجمہ کیا۔ مثلاً کندی کی مرکب ادویہ، ابن سینا کی القانون، زہراوی کیلتصریف کا ترجمہ کیا۔
واضح رہے ابن سینا کی کتاب القانون یورپ کی درسگاہوں میں سولہویں صدی عیسوی تک پڑھائی جاتی رہی ہے۔
رازی کی کتاب المنصوری کی نویں جلد کو انتہائی پذیرائی حاصل رہی۔
ایجادات کی دنیا میں سب سے پہلے طیارہ بنانے کی کوشش عباس فرناس متوفی ۸۸۸ء نے اٹلی کے لیوناردو سے ۶۰۰ سال پہلے کی تھی۔
ابوالحسن بن ھیثم متوفی ۱۰۳۹ء نے پہلی فوٹو بنانے کا تجربہ کیا۔
مسلمان سائنسدان
سارٹن (George Alfred Leon Sarton) اپنی مشہور کتاب تاریخ العلم (History of Science) میں علم کو صدیوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر نصف صدی ایک علمی شخصیت سے منسوب کرتے ہیں۔
چنانچہ گزشتہ تین سو پچاس سال ۷۵۰ء سے ۱۱۰۰ء تک ہر نصف صدی میں ایک شخص بھی غیر مسلم نظر نہیں آتا۔ اس طرح یہ سال جابر بن حیان، خوارزمی، رازی، مسعودی، ابو الوفاء، بیرونی، عمر خیام کے ناموں سے منسوب ہیں۔ یہ سب اسلامی ملکوں عرب، ترکستان، افغانستان اور ایران کے مسلمان تھے۔ ان میں کیمیا، الجبراء، طب، جغرافیہ کے ماہرین تھے۔
سارٹن کی کتاب میں ۱۱۰۰ء تک کسی غیر مسلم سائنسدان کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کے بعد ڈھائی سو سال تک مسلم اور غیر مسلم دونوں سائنسدانوں کا ذکر ہے۔ ان میں ابن رشد،نصیر الدین طوسی اور ابن النفیس کا ذکر ملتا ہے۔
موجودہ سائنس و ٹیکنالوجی کا انقلاب دیکھ کر انسان خیال کرتا ہے کہ یہ سب مغرب والوں کی کرشمہ سازی ہے، مسلم دنیا کسی کارنامے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ذیل میں آپ کو بتاتے ہیں کہ اہلیت اور قابلیت ہمارا ورثہ ہے۔
دنیا کو علم و سائنس سے ہم نے روشناس کرایا ہے۔ البتہ ہم سازشی نہیں ہیں اور انسان سوز عیاری ہمیں نہیں آتی اس لیے ہم پیچھے رہ گئے۔ سازشیوں نے کل ہم سے علم کی روشنائی حاصل کی اور آج ہم سے ہمارا دماغ لے جاتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ادھر مسلم دنیا دوسروں کو سازش کے ذریعے رام کرنا درکنار دوسروں کی سازشوں کا شکار ہو رہی ہے۔
ہم ذیل میں ان مسلمانوں سائنسدانوں کا ایک مختصر تعارف پیش کرتے ہیں جن کے سامنے مغربی دنیا نے زانوئے تلمذ تہ کیا۔
ہم یہاں کتاب بناة الفكر العلمي في الحضارة الإسلامية سے چند اسلامی سائنسدانوں کا ذکر کرتے ہیں۔
۱۔ جابر بن حیان
پیدائش ۱۰۲ ھ۔ وفات ۱۹۹ ھ بمطابق ۸۱۵ء
جابر بن حیان کی تالیفات ۲۳۲ سے ۵۰۰ تک ہیں۔ ان کی بعض کتابوں کا لاطینی میں ترجمہ بارہوں صدی عیسوی میں ہوا اور انگریزی میں ترجمہ ۱۶۷۸ء میں ہوا۔ کئی صدیوں تک اہل یورپ کا جابر بن حیان کی کتب پر انحصار رہا خصوصاً جدید کیمیا میں۔ چنانچہ میکس میئرھوف کہتے ہیں:
یورپ میں کیمیا کی ترقی کا سہرا جابربن حیان کے سر ہے۔
چنانچہ آج بھی یورپ میں جابر بن حیان کی ایجاد کردہ اصطلاحات رائج ہیں۔
ھبۃالدین شھرستانی کہتے ہیں:
یورپ کے تمام سائنسدان معترف ہیں کہ آج تک جتنے عناصر کا انکشاف ہوا ہے ان میں سے ۱۹ عناصر کا انکشاف جابر بن حیان نے کیا ہے۔
جابر کہتے ہیں:
ان تمام عناصر کا بنیادی عنصر صرف ایک ہے اور وہ ہے الیکڑک جو ذرہ (ایٹم( میں پوشیدہ ہے۔ جابر کی یہ بات اس الیکڑون کے قریب ہے جو ایٹم میں موجود ہے۔ (۱ٍ)
۲۔ خوارزمی
متوفی ۲۳۶ ھ۔ ۸۵۰ء
آپ الجبرا کے موسس ہیں اور یورپ وغیرہ میں آج بھی یہ علم الجبرا کے نام سے موسوم ہے۔ بارہویں صدی عیسوی میں ان کی کتب کا لاطینی میں ترجمہ ہوا ہے۔ ان کی کتب سولہویں صدی تک یورپ کی درسگاہوں میں پڑھائی جاتی رہی ہیں۔
۳۔ ابن ربّن الطبری
متوفی ۲۴۷ ھ۔ ۸۶۱ء
ان کا نام ابوالحسن علی بن ربن سھل الطبری ہے۔ آپ اپنے زمانے کے نہایت حاذق طبیب تھے۔ اکثر امراض کا علاج جانتے تھے۔
ان کی تالیفات میں مشہور فردوس الحکمۃ ہے۔ جس میں طب کی تمام فروع کا ذکر ہے۔ کتاب عربی میں ہے اور اسی وقت سریانی زبان میں اس کا ترجمہ ہوا اور جرمن کی فرینکفرٹ یونیورسٹی نے طبع کیا۔
حوالہ جات
(۱)الدلائل والمسائل بحوالہ اسلام و تمدن غرب
اقتباس از کتاب "انسان اور کائنات میں اللہ کی تجلی”