Table of Contents
تحریر:دکتر نیما نریمانی
ترجمہ: غلام رسول وَلایتی؛ ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈپارٹمنٹ آف فیتھ اینڈ ریزن
مقدمہ:
جدید دور کے وجود میں آنے سے پہلے اور اس کے مرکز میں جدید سائنسی نقطہ نظر کے ظہور سے قبل، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالب عالمی نظریہ، چاہے وہ عوامی دائرے میں ہو یا ماہرین و مفکرین کے درمیان، "خدا پرستی” کا نظریہ تھا۔ اگرچہ خدا پرستی مختلف نظریات پر مشتمل تھی، لیکن اس کا مشترکہ نکتہ اس مادی دنیا سے ماورا اور برتر ایک ایسی حقیقت پر ایمان تھا جو بامقصد اور اخلاقی ہے۔
قدیم یونان میں، جہاں کوئی مخصوص وحی پر مبنی مذہب غالب نہیں تھا، ممتاز مفکرین اعلیٰ اور ماورائی حقیقت پر گفتگو کرتے تھے۔ جیسا کہ افلاطون (429 تا 374 ق۔م) نے یہ نظریہ پیش کیا کہ مشاہدہ کی جانے والی دنیا ایک بنیادی اور غیر مرئی، غیر متغیر حقیقت پر مبنی ہے۔ اسی طرح، ارسطو (322 تا 284 ق۔م) نے ان فلسفیوں پر تنقید کی جو فطرت کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے۔ ان کی تین سطحی علمی تقسیم میں، فطرت کا مطالعہ "طبیعی فلسفہ” کے تحت آتا تھا، جبکہ اعلیٰ علوم جیسے ریاضی اور الٰہیات ناقابل تغیر حقائق سے متعلق تھے۔
اگرچہ ارسطو کی توجہ بنیادی طور پر قدرتی اور مادی دنیا پر تھی، لیکن ان کے نزدیک فطرت خدا پر منحصر تھی (Harrison 2019, 7)۔ ارسطو اور دیگر خدا پرست فلسفیوں کا عقیدہ تھا کہ فطری دنیا (فوسیس) ایک الہی منصوبے کے تحت ہے۔ خاص طور پر، وہ اس میں ایسے نشانات دیکھتے تھے جو ایک ذہین اور با مقصد تخلیق کار کے وجود کی نشاندہی کرتے ہیں، جسے وہ ان نشانات کی آخری علت سمجھتے تھے۔
چنانچہ، ان فلسفیوں نے کم از کم دو طرح کی طاقتوں کا تصور پیش کیا: فطرت کی طاقت، جو الہی فضل کا نتیجہ ہے، اور ایک اعلیٰ الہی طاقت۔ قرون وسطیٰ کے مسیحی الٰہیات دانوں نے اس میں ایک تیسرا عنصر بھی شامل کیا: ماورائی طاقت، جس میں غیر مادی اور عقلی مخلوقات جیسے فرشتے شامل تھے، جو الہی تخلیق کا ایک اور پہلو تھے۔ (Okello, 2016, p. 28).
قرون وسطیٰ میں وجودیات (Ontology) اور معرفت شناسی (Epistemology) کے عناصر
قرون وسطیٰ کے مغربی فکر میں "خدا”، "انسان”، "کائنات” اور "معرفت” کے بارے میں عمومی نظریات کو درج ذیل عناصر میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:
ارسطوی-مسیحی فکر کی حاکمیت
قرون وسطیٰ کے آخری دور کا عمومی فکری رجحان ارسطویی فلسفے اور مسیحیت کے امتزاج پر مبنی تھا۔ اس دور کے مسیحی مفکرین میں، تھومس اکوینس (Thomas Aquinas) (1225-1274)، جو ایک مشہور فلسفی، الٰہیات دان اور اطالوی پادری تھے، نے اس مرکب نظریے کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔اس نظریے کے مطابق، نفس اور جسم کا باہمی اتحاد انسانی فطرت کو تشکیل دیتا ہے۔ یہ تصور زیادہ تر یونانی فلسفے کا اثر ہے، بجائے اس کے کہ براہ راست بائبل سے ماخوذ ہو۔ارسطو کی فلسفیانہ اصطلاحات "غیر متحرک محرک” اور "اولین ماورائی علت” کو "ذاتی خدا باپ” اور "متحرک، بامقصد خالق” سے ہم آہنگ سمجھا جاتا تھا، جو کہ بائبل میں بیان کیا گیا ہے۔
توماس آکویناس کے دلائل برائے اثبات وجودِ خدا
کائناتی دلیل (برہان امکان و وجوب)
تمام موجودات کی علت ایک سلسلہ وار ترتیب میں جڑی ہوئی ہے، اور یہ سلسلہ بالآخر کسی اولین علت تک پہنچنا ضروری ہے۔اگرچہ تھومس اکوینس نے غیر متناہی علتوں کے امکان کو رد نہیں کیا، مگر ان کے مطابق، کائنات میں پائے جانے والے تمام واقعات (چاہے وہ محدود ہوں یا لامحدود) ممکن الوجود ہیں، یعنی وہ اپنے وجود کے لیے کسی واجب الوجود علت کے محتاج ہیں۔
دلیلِ نظم (برہانِ نظم و ترتیب)
یہ دلیل ایک علیم و حکیم خالق (Designer) کے وجود کو ثابت کرتی ہے۔اگرچہ یہ تصور عین اسی تصور خدا سے مطابقت نہیں رکھتا جو آکویناس اور بائبل میں موجود ہے، لیکن تھومس اکوینس ے اس علیم و حکیم طراح کو وہی خالق قرار دیا جو بائبل میں بیان کیا گیا ہے۔
معرفت کے ذرائع (عقل و وحی): فلسفہ اور الٰہیات کے نقطہ نظر سے
اسکولسٹیک (تھومسی فکر) کے مطابق، کائنات میں دو طرح کی حقیقتیں پائی جاتی ہیں، اور ہر ایک کے لیے مخصوص ذریعۂ شناخت ہے:
فطری حقائق:
یہ وہ حقائق ہیں جو سب کے لیے قابلِ دسترس ہیں۔ان تک رسائی کے لیے کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ عقل کے ذریعے انہیں سمجھا جا سکتا ہے۔
وحیانی حقائق:
یہ وہ حقائق ہیں جو مسیح اور دیگر انبیاء کے ذریعے ظاہر کیے گئے۔یہ حقائق کتابِ مقدس کے ذریعے پہنچائے گئے اور کلیسا نے انہیں محفوظ رکھا۔تھومس اکوینس کے نزدیک، عقل ایمان کے لیے ایک بنیادی مقدمہ ہے، کیونکہ یہ بعض الٰہیاتی حقائق کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ تاہم، وحی کی برتری تسلیم کی جاتی ہے، کیونکہ کئی ایسے حقائق ہیں جو عقل کی دسترس سے باہر ہیں (مثلاً تثلیث اور تجسد)۔ حتیٰ کہ وہ حقائق جو فلسفے کے ذریعے سمجھے جا سکتے ہیں، وحی کے ذریعے عوام کے لیے زیادہ آسان اور قابلِ فہم ہو جاتے ہیں۔ قرون وسطیٰ کا عمومی فکری رجحان حقیقت پسندانہ (Realistic) تھا۔ یعنی، عقل کو حقیقی دنیا کی ماہیت کو سمجھنے میں قابل سمجھا جاتا تھا اور بیرونی دنیا کے بارے میں یقینی معرفت ممکن تھی۔ اس وقت جدید فلسفے (مثلاً دیکارت کے بعد) کی طرح معرفت پر شدید شک و شبہ موجود نہیں تھا۔
کائنات کے بارے میں غایت مند اور عقلی تصور
اس دور کے فکر میں کسی بھی مظہر (Phenomenon) کی وضاحت میں اس کی "غایت” (یعنی اس کے مقصد اور انجام) کو زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا، بجائے اس کے کہ محض اس کے سائنسی اور طبعی عمل پر توجہ دی جائے۔
اس سوچ کے پیچھے دو بنیادی مفروضے تھے: کائنات ایک عقلی نظام پر مشتمل ہے۔ہر چیز کا ایک مخصوص مقام اور مقصد ہے، کیونکہ وہ ایک بامقصد اور حکمت والے خدا کی تخلیق ہے، خداوند "اعلیٰ خیر” اور "فطرت کی آخری غایت” ہے، اور وہ تمام مخلوقات کو ان کے مقررہ مقاصد کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
مراتبِ وجود (Hierarchy of Being)
اس نظریے کے مطابق، کائنات اور وجود ایک واحد منظم اور درجہ بندی شدہ سلسلہ ہے، جہاں ہر مخلوق اپنا مخصوص کردار ادا کرتی ہے۔زمین کو ایک مرکزی اور ساکن فلک سمجھا جاتا تھا۔ انسان کو ایک منفرد مخلوق تصور کیا جاتا تھا، جو زمین پر بسنے والا ہے، اس لیے زمین کی مکانی حیثیت اور انسان کی مقامیت آپس میں ہم آہنگ سمجھی جاتی تھی۔الٰہی دنیا (Divine Realm) زیادہ کامل اور جامع سمجھی جاتی اور نظامِ تخلیق سے علیحدہ مانی جاتی تھی۔
اس نظام میں:خداوند سب سے اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔انسان کائنات کے مرکز میں موجود ہے اور پوری فطرت انسان کے لیے مسخر ہے۔انسان، خدا کی خدمت کے لیے تخلیق کیا گیا ہے، اس لیے یہ نظام خدا مرکز (Theocentric) ہے، لیکن دنیا کو ایک انسان مرکز (Anthropocentric) زاویے سے پیش کرتا ہے۔
خدا کی عمومی اور مخصوص فاعلیت
تھومس اکوینس کے مطابق، خدا ہمیشہ کائنات کا حاکم اور فعال طاقت ہے۔ یہ نظریہ قرن 18 کے دئیسم (Deism) کے برعکس ہے، جس میں خدا کو محض ایک غیر مداخلت کار خالق سمجھا جاتا تھا۔اکوینسی تصور میں:فطرت کو جامد (Static) سمجھا جاتا تھا، یعنی تمام انواع (Species) اپنی موجودہ اشکال میں ابتدا سے تخلیق کی گئی ہیں۔بنیادی سطح پر کوئی نئی چیز ظہور پذیر نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ خدا کی براہِ راست مداخلت سے نہ ہو۔
خداوند کا کائنات میں عمل دخل مختلف طریقوں سے ہوتا ہے:
بطورِ خالقِ کائنات (اولین علت – First Cause)،بطورِ خیرِ اعلیٰ (Ultimate Good) اور کائنات کی غایت ،طبیعی اسباب (Natural Causes) کے ذریعے فطرت میں مداخلت،فرشتوں کے ذریعے کائنات میں اثراندازی،براہِ راست اور معجزاتی طریقے سے فطرت میں مداخلت۔
خدا کے افعال ثانوی اسباب اور واسطوں (مثلاً قدرتی قوانین اور فرشتوں) کے ذریعے بھی رونما ہو سکتے ہیں، لیکن ان تمام واسطوں کی قوت کا منبع بھی خدا کی ذات ہے۔ ہر واقعے کے لیے الٰہی توفیق (Divine Concurrence) لازمی قرار دی جاتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔
بشکریہ: al-tohid.ir