Table of Contents
تحریر: غلام رسول وَلایتی؛ ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈپارٹمنٹ آف فیتھ اینڈ ریزن
تصور خدا
اللہ تعالیٰ کا بابرکت وجود کسی دلیل یا ثبوت کا محتاج نہیں، کیونکہ یہ انسانی فطرت کی گہرائیوں میں پیوست ایک بدیہی حقیقت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر سلیم الفکر اور سلیم الطبع انسان نے ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں خالقِ کائنات کے وجود کو تسلیم کیا ہے۔ چاہے وہ قدیم تہذیبوں کے فلسفی ہوں یا جدید دور کے محققین، سب نے کسی نہ کسی درجے میں اس حقیقت کو پایا کہ کائنات کا وجود، اس میں پائی جانے والی ترتیب، حکمت اور قوانین، ایک برتر ہستی کی نشانیاں ہیں۔
اللہ پر ایمان صرف ایک عقلی استدلال نہیں، بلکہ انسانی شعور کی آواز اور دل کی گواہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کے دل تعصب سے پاک رہے، جنہوں نے اپنی عقل کو کھلے دل و دماغ سے استعمال کیا، وہ خالق کے وجود کے قائل ہوئے۔ اس کے برعکس، جو لوگ ضد، تعصب یا نفسانی خواہشات میں گرفتار رہے، یا وہ جو حقیقت کو سمجھنے کے لیے درکار علمی و فکری گہرائی نہ رکھتے تھے، وہی انکار کی راہ پر چلے۔
اللہ کی ہستی کا انکار حقیقت سے فرار کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ ہر ذرہ، ہر مخلوق، ہر قانونِ قدرت اسی کی موجودگی کی گواہی دیتا ہے۔ انسان کا وجدان، اس کا ضمیر، اور اس کی فطری جبلت بھی اسی حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ کوئی نہ کوئی برتر قوت اس نظام کو چلانے والی ہے۔ چنانچہ اللہ کے وجود پر ایمان رکھنا صرف مذہبی عقیدہ نہیں، بلکہ ایک فطری اور عقلی نتیجہ ہے، جو ہر باشعور انسان کی روح میں گونجتا ہے۔
انسان کی فطرت ابتدا ہی سے متألّہ اور توحید کی طرف مائل ہے۔ اس کی سرشت میں خدا کی پہچان اور اس کی جانب رجوع کرنے کا ایک داخلی داعیہ موجود ہے، جو کسی بیرونی جبر یا حالات کا مرہونِ منت نہیں، بلکہ خود اس کی فکری و روحانی ساخت میں پیوست ہے۔ مذہبی حس انسان کی جبلت میں ایک مضبوط بنیاد کے طور پر ودیعت کی گئی ہے، جس پر علم، عرفان اور تجربے کی عمارت استوار کرنا ایک فطری اور عقلی ضرورت ہے۔ اگر اس فطری بنیاد کو نظر انداز کر دیا جائے، یا اسے یونہی خالی چھوڑ دیا جائے، تو مختلف خارجی اثرات، خواہ وہ معاشرتی ہوں یا فکری، اس پر حاوی ہونے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر انسان کو اپنی اصل شناخت سے دور رکھا جائے، تو وہ غیر محسوس طریقے سے اپنے ماحول، مطالعے یا اردگرد موجود نظریات سے متاثر ہونے لگتا ہے اور بے راہ روی کا شکار ہوسکتا ہے۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ دینداری کی حس انسانی جبلت میں رچی بسی ہے، جس کا ظہور ہر دور میں کسی نہ کسی صورت میں ہوتا رہا ہے۔ یہ ایسا الہامی شعلہ ہے جو راہنمائی، پرورش اور درست سمت کی جستجو چاہتا ہے۔ اگر اس جذبے کو صحیح تعلیم، سلیم الفکری اور حقیقی معرفت کی روشنی میں پروان چڑھایا جائے، تو یہ ایک بلند و بالا فکری و روحانی عمارت میں تبدیل ہو سکتا ہے، جو نہ صرف فرد کی زندگی کو بامقصد بناتا ہے، بلکہ اسے حقیقت اور سراب میں تمیز کرنے کا شعور بھی عطا کرتا ہے۔
پس، لازم ہے کہ انسان اپنی اس فطری پیاس کو حقیقی سرچشمے سے سیراب کرے، تاکہ اس کا ایمانی و فکری وجود بیرونی اثرات کی آندھیوں سے متزلزل نہ ہو۔ ایک باشعور انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی فطرت کی اس اندرونی آواز کو پہچانے، اسے شعور کی روشنی دے، اور اسے بے راہ اثرات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے، تاکہ اس کا ایمان ایک مضبوط، مستحکم اور ناقابلِ تسخیر عمارت کی مانند ہو، جو ہر دور میں حق کی روشنی بکھیرتی رہے اور ہر آزمائش میں اپنی بنیادوں پر قائم رہے۔
منطقی اثباتیت اور سائنسی تجربیت کے خلاف ایک فکری تجزیہ
منطقی اثباتیت یا سائنٹزم محض ایک علمی رجحان نہیں بلکہ بیسویں صدی کی دوسری چوتھائی میں ایک منظم تحریک کے طور پر ابھری، جو گزرتے وقت کے ساتھ شدت پسندی میں بدل گئی۔ اس تحریک کی پشت پر وہ الحادی طبقات تھے جو سائنسی لبادے میں مذہب پر حملہ آور ہو رہے تھے، اور حقیقت یہ ہے کہ سائنسی فکر کو ایک مخصوص سازش کے تحت ایسے افراد کے ہاتھوں میں دے دیا گیا، جو مذہب کی جڑیں کاٹنے کے لیے سرگرم تھے۔ ان لوگوں نے سائنسی ترقی اور تجرباتی مشاہدات کو نہ صرف خالص مادی نقطۂ نظر سے دیکھنا شروع کیا، بلکہ ایک باقاعدہ نظریہ بنا کر پیش کیا کہ صرف وہی حقیقت ہے جو تجربے سے ثابت ہو سکے۔
اس تحریک کا سب سے خطرناک پہلو یہ تھا کہ اس نے عوامی ذہنوں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کی ضد ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مذہب نے ہمیشہ سچائی، حقیقت اور کائناتی قوانین کو سمجھنے کی ترغیب دی، اور مسلمانوں کی علمی تاریخ گواہ ہے کہ سائنسی ترقی کے بانی خود مذہب کے ماننے والے تھے۔ تاہم، جب سائنسی اداروں اور فکری فورمز پر الحادی عناصر کا تسلط بڑھا تو سائنس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ نتیجتاً، دین سے نابلد اور کمزور فکری بنیادوں پر کھڑے افراد، جو عوامی نظریات اور خرافات کو ہی دین سمجھ بیٹھے تھے، اس تحریک کے زیرِ اثر آ گئے اور الحاد کی طرف مائل ہونے لگے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں دین سے دوری کا رجحان ایک منظم پروپیگنڈے کے نتیجے میں بڑھنے لگا۔ اگر ہم شیعہ اکثریتی ممالک کا جائزہ لیں، تو کئی فیصد افراد اپنے مذہب پر یقین کھو چکے ہیں۔ ایک خاص منصوبے کے تحت دینی اعتقادات پر حملہ کیا گیا اور کمزور علمی بنیاد رکھنے والے افراد کو اس فکری یلغار کے نتیجے میں اپنا دین چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ پاکستان جیسے ممالک میں بھی یہ رجحان دینی مدارس، کالجز اور یونیورسٹیوں تک سرایت کر چکا ہے، جہاں کئی فیصد طلبہ و طالبات دین سے کنارہ کش ہوتے جا رہے ہیں۔
منطقی اثباتیت اور سائنٹزم کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ ایک محدود نظریہ ہے، جو صرف تجرباتی مشاہدے کو ہی حقیقت کی کسوٹی سمجھتا ہے۔ یہ نظریہ خود اپنے اصولوں پر بھی پورا نہیں اترتا، کیونکہ سائنٹزم یہ تسلیم کرتا ہے کہ صرف وہی چیزیں حقیقت رکھتی ہیں جو تجربہ گاہ میں پرکھی جا سکیں، مگر خود یہ اصول کسی سائنسی تجربے سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نظریہ حقیقتِ مطلق کے فہم میں ناکام ہے، کیونکہ انسان کی علمی حدود محدود ہیں، جبکہ حقیقت لامحدود ہے۔ حقیقت کا ایک بڑا حصہ انسانی مشاہدے اور تجربے سے ماورا بھی ہو سکتا ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں مذہب کی ضرورت ناگزیر ہو جاتی ہے۔
اہلِ دین کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ خالص سائنسی فکر اور سائنٹزم میں فرق کو سمجھیں۔ سائنٹزم ایک فکری انحراف ہے جو دین کی جگہ لینے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ حقیقی سائنس حقیقت کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے، نہ کہ مقصد۔ ہمیں اپنی علمی، عقلی اور استدلالی بنیادوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم نہ صرف اس فکری یلغار کا مقابلہ کر سکیں، بلکہ اپنی نئی نسل کو بھی اس علمی فتنے سے محفوظ رکھ سکیں۔ دین اور سائنس کو ایک دوسرے کی ضد سمجھنے کے بجائے، انہیں ایک تکمیلی حقیقت کے طور پر دیکھنا ہی حقیقت پسندی اور دانشمندی کا تقاضا ہے۔
الحاد، سائنسی لبادہ اور دینی معارف سے دوری
الحاد کے فروغ کی متعدد وجوہات ہیں، لیکن اس میں دو بنیادی اسباب نہایت نمایاں ہیں: ایک تو یہ کہ الحاد نے خود کو سائنس کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کیا، اور دوسرا یہ کہ اہلِ دین نے اپنی علمی روایت، خاص طور پر کلامی اور اسلامی فلسفیانہ دقیق معارف سے غفلت برتی۔ نتیجتاً، جہاں ایک طرف دین کا علمی دفاع کمزور ہوا، وہیں سادہ ذہنوں کو سائنس کے نام پر بے بنیاد الحادی افکار کی جانب مائل کرنا آسان ہو گیا۔
اسی طرزِ فکر کا ایک مضحکہ خیز نمونہ وہ طرزِ استدلال ہے جو ہکسلے نے نیوٹن کے حوالے سے بیان کیا۔ ہکسلے لکھتا ہے کہ نیوٹن نے ثابت کر دیا ہے کہ کوئی خدا نہیں جو سیاروں کی گردش پر حکومت کرے۔ اگر اس جملے پر تدبر کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ خدا کا تصور ہی بنیادی طور پر غلط سمجھ رہے تھے۔ ان کے خیال میں خدا کسی آسمانی کرسی پر بیٹھا ہوا کوئی دیو ہیکل حاکم ہے، جس کے ہاتھ میں کچھ لگامیں ہیں، جن سے وہ سیاروں کو قابو میں رکھے ہوئے ہے۔ جب جدید مشاہداتی آلات، جیسے ٹیلی سکوپ، ایجاد ہوئے اور آسمان کی طرف دیکھا گیا تو نہ تو کوئی رسی نظر آئی، نہ کوئی تخت، نہ ہی کسی کرسی پر براجمان کوئی عظیم الجثہ ہستی۔ پس انہوں نے نتیجہ نکالا کہ خدا موجود نہیں ہے اور کائنات خود بخود چل رہی ہے!
یہ منطق سراسر سطحی اور مضحکہ خیز ہے، کیونکہ اس میں خدا کا تصور نہایت سادہ لوحی سے پیش کیا گیا ہے، جو کسی سنجیدہ مذہبی فکر کا حصہ نہیں رہا۔ یہ وہی فکری انحراف ہے جسے جدید الحادی تحریکوں نے پروان چڑھایایعنی خدا کے حقیقی، متعالی اور فلسفیانہ تصور کو سمجھے بغیر، ایک کارٹونی، مجسم اور مادی تصور گھڑ کر، اسے رد کر دینا۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کو کسی فزیکل نظام میں محض ایک مادی عنصر کے طور پر تلاش کرنا ہی فکری ناپختگی کی علامت ہے۔ وہ قادرِ مطلق ہے، جو نہ کسی کرسی کا محتاج ہے، نہ کسی مادی رسی یا لگام کا۔ وہ علتُ العلل ہے، جو کائنات کو محض خارجی محرک کے طور پر نہیں، بلکہ اس کے داخلی قوانین، فطری نظم اور ہر آن جاری و ساری مشیت کے ذریعے چلاتا ہے۔ خدا کا انکار اس بنیاد پر کرنا کہ وہ ٹیلی سکوپ میں نظر نہیں آیا، ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ انسانی عقل کا وجود نہیں کیونکہ وہ خوردبین میں دکھائی نہیں دیتی!
یہی وہ مقام ہے جہاں اہلِ دین کو اپنی علمی روایت، خاص طور پر فلسفہ، کلام اور قرآنی معارف کی گہرائی میں اتر کر، جدید علمی یلغار کا جواب دینا ہوگا۔ کیونکہ جب مذہبی فکر اپنی مضبوط علمی بنیادوں پر کھڑی ہو، تو کوئی بھی الحادی پروپیگنڈا زیادہ دیر تک اپنی مصنوعی عمارت کو قائم نہیں رکھ سکتا۔
الحاد جدید، سائنسی یلغار اور دینی بیداری
مغرب میں الحاد کی منظم تحریک سب سے پہلے اس وقت زور پکڑنے لگی جب ملحدین نے سائنس کو اپنا سب سے بڑا سہارا بنا لیا۔ اس فکری یلغار کے پیچھے محض چند آزاد خیال فلسفی نہیں، بلکہ ایک پورا سرمایہ دارانہ طبقہ تھا، جو مذہب کو انسانی آزادی کے لیے رکاوٹ تصور کرتا تھا اور اسے سماج سے بے دخل کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ الحادی نظریات کو سائنسی زبان میں پیش کیا جانے لگا تاکہ مذہب مخالف فکر کو ایک مستند اور ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر عوام میں راسخ کیا جا سکے۔
تاہم، مسیحی علما نے اس چیلنج کا ادراک کیا اور الحادی مذہبِ سائنس کے دلائل کے توڑ کے لیے خود سائنس کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے کئی علما نے سائنسی تعلیم حاصل کی، علمِ کلام میں سائنسی براہین کی تشکیل نو کی، اور ایسے علمی استدلال پیش کیے جو نہ صرف فلسفی دلائل پر مبنی تھے، بلکہ سائنسی اصولوں کی روشنی میں بھی استوار کیے گئے تھے۔ نتیجتاً، کئی علما خود سائنس دان بنے اور انہوں نے الحاد کے خلاف مضبوط سائنسی اور فلسفیانہ دلائل پر مشتمل کتب تحریر کیں، جنہوں نے جدید علمی حلقوں میں ایک مضبوط فکری مزاحمت کی بنیاد رکھی۔
لیکن یہ جدوجہد کسی ایک دور یا ایک خطے تک محدود نہیں۔ جب تک اہلِ دین بیدار نہیں ہوں گے، اور جب تک وہ جدید سائنسی مباحث کو گہرائی سے نہیں سمجھیں گے، تب تک الحاد کی یلغار رکنے والی نہیں۔ ضروری ہے کہ دینی اسکالرز اور علما سائنسی اصطلاحات، منطق، اور سائنسی طرزِ استدلال کو گہرائی سے سیکھیں، تاکہ وہ سائنسی زبان میں ہی نوجوانوں کو مدلل جوابات دے سکیں۔ الحاد کی اندھی تقلید کا رجحان اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک اہل علم اور علمائے کرام نئے اصطلاحات میں، نئے علمی اسلوب اور کلامِ جدید پہ اپنی تحقیات کو بڑھاتے ہوئے جوانوں کے ساتھ گفتگو نہیں کریں گے۔