Table of Contents
تحریر: غلام رسول وَلایتی، ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈپارٹمنٹ آف فیتھ اینڈ ریزن
انسانی معاشرے میں مختلف فکر کے لوگ
انسانی معاشرے میں مختلف نظریات، تصورات اور مذاہب کا وجود ایک حقیقت ہے۔ اسلام نے اس تنوع کو قبول کیا اور مختلف ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان احترام و تعاون کی بنیاد رکھی۔ اس کے مطابق، اختلافات کو خطرے کی بجائے انسانی زندگی اور خلقت کا حصہ قرار دیا ہے، اور ایک جامع اخلاقی نظام کے ذریعے انسان ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے رہ سکتے ہیں۔ اسلام نے اپنے اخلاقی نظام کے ذریعے ایک ایسا لائحہ عمل مہیا کیا ہے جو نہ صرف فرد کو بہتر انسان بننے کی ترغیب دیتا ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور عالمی امن کے لیے بھی بنیاد فراہم کرتا ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالی نے فرمایا کہ؛
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ۔ حجرات ۱۳
ے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔
اختلاف رنگ و نسل فقط پہچان کا ذریعہ ہوسکتی ہے نہ کہ اختلاف اور جنگ و جد ل کیے لیے۔ اسی لیے اسلام نے آداب زیست کے طور پہ ایک ساتھ انسانی معاشرے میں اچھی زندگی گزارنے کے اصول بیان فرمائے جیسا کہ امیرالمؤمنین نے نہج البلاغہ میں فرمایا ہے۔
مخلوق خدا دو طرح کے ہیں؛ ایک مسلم دوسرا غیر مسلم:
مذہب اور دین کی نظر سے دیکھیں تو انسان دو طرح کے ہیں،ایک مسلم ہے دوسرا غیر مسلم ہے۔ اسے ہم نے امیرالمؤمنین امام علی ع سے سیکھاہے، اس بارے میں آپ ع فرماتے ہیں کہ؛
وَ أَشْعِرْ قَلْبَكَ اَلرَّحْمَةَ لِلرَّعِيَّةِ وَ اَلْمَحَبَّةَ لَهُمْ وَ اَللُّطْفَ بِهِمْ وَ لاَ تَكُونَنَّ عَلَيْهِمْ سَبُعاً ضَارِياً تَغْتَنِمُ أَكْلَهُمْ فَإِنَّهُمْ صِنْفَانِ إِمَّا أَخٌ لَكَ فِي اَلدِّينِ أَوْ نَظِيرٌ لَكَ فِي اَلْخَلْقِ يَفْرُطُ مِنْهُمُ اَلزَّلَلُ وَ تَعْرِضُ لَهُمُ اَلْعِلَلُ وَ يُؤْتَى عَلَى أَيْدِيهِمْ فِي اَلْعَمْدِ وَ اَلْخَطَإِ فَأَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وَ صَفْحِكَ مِثْلِ اَلَّذِي تُحِبُّ وَ تَرْضَى أَنْ يُعْطِيَكَ اَللَّهُ مِنْ عَفْوِهِ وَ صَفْحِهِ فَإِنَّكَ فَوْقَهُمْ وَ وَالِي اَلْأَمْرِ عَلَيْكَ فَوْقَكَ وَ اَللَّهُ فَوْقَ مَنْ وَلاَّكَ…(۱) الامام علی امیرالمؤمنین
عوام کے ساتھ مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعار بنالو اور خبردار ان کے حق میں پھاڑ کھانے والے درندہ کے مثل نہ ہوجانا کہ انھیں کھاجانے ہی کو غنیمت سمجھنے لگو۔۔۔
اسلام صرف نماز کا نام نہیں
اگر سارے لوگ صرف نماز کو ہی سارا اسلام نہ سمجھیں، اسلامی قوانین اور اخلاقیات کو بھی اسلام کو حصہ سمجھیں اور اسلام کے مبلغین نفرت، جنگ اور ایک دوسرے کو کافر کافر کہنے کے بجائے اسلام کے اخلاقیات پہ توجیہ دیتے تو آج یہ قوم دنیا کی بااخلاق ترین قوم کہلاتی۔ علما نے فقہ کے علم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے، فقہہ اصغر یعنی احکام کا علم، جس میں ایک فقیہ اپنی عمر صرف کرتا ہے دین کے اس حصے کو سمجھنے کے لیے جسے مجتہد یا مرجع کہا جاتاہے، فقہ کا دوسرا حصہ فقہ اوسط ہے جسے اخلاق اسلامی بھی کہا جاتاہے، لیکن اس پہ اتنی توجہ نہیں ہے، کسی بھی طبقے میں دیکھیں۔ غور کیجیے کہ اس موضوع پہ کتنی کتابیں لکھی گئی ہیں، فقہ اصغر کی کتب کوبھی شمار کیجیے اور فقہ اوسط کی کتب بھی شمار کیجیے تو گنے چنے لوگوں کی ہی کتب مل سکتی ہیں۔ اسلام نے جتنا اخالق پہ زور دیا اتنا شاید ہی کسی بات پہ زور دیا ہو، بلکہ بعثت رسول ص کا سبب اصلی ہی حسن اخلاق کی تکمیل قرار دیا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے؛ (إنّما بُعِثتُ لاُتمِّمَ حُسنَ الأخلاقِ(۲) یہ لوگ ایک دوسرےسے نفرت کرسکتے ہیں تو ایک دوسرے سے پیار محبت کے ساتھ رہ بھی سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک بھی ہوسکتی ہے۔ درندگی کے علاوہ خلق حسن کا اظہار بھی کرسکتے ہیں لیکن بدقسمتی کہ بقول شاعر کے:
ع ہر کسی از ظن خود شد یار من از درون من نجست اسرار من
ہر کوئی اپنے گمان و خیال لے کر میرا یار اور دوست بنا ہے لیکن میرے اندر کسی نے نہیں جھانکا کہ میں کیا چاہتا ہوں اور میرا بھی کوئی خیال ہے یا نہیں ہے، ہر ایک اپنے من کی بات مانتا ہے۔
فَإِنَّهُمْ صِنْفَانِ إِمَّا أَخٌ لَكَ فِي اَلدِّينِ أَوْ نَظِيرٌ لَكَ فِي اَلْخَلْقِ يَفْرُطُ مِنْهُمُ اَلزَّلَلُ وَ تَعْرِضُ لَهُمُ اَلْعِلَلُ وَ يُؤْتَى عَلَى أَيْدِيهِمْ فِي اَلْعَمْدِ وَ اَلْخَطَإِ فَأَعْطِهِمْ مِنْ عَفْوِكَ وَ صَفْحِكَ مِثْلِ اَلَّذِي تُحِبُّ وَ تَرْضَى أَنْ يُعْطِيَكَ اَللَّهُ مِنْ عَفْوِهِ وَ صَفْحِهِ فَإِنَّكَ فَوْقَهُمْ وَ وَالِي اَلْأَمْرِ عَلَيْكَ فَوْقَكَ وَ اَللَّهُ فَوْقَ مَنْ وَلاَّكَ…
۔۔۔ انسان دو طرح کے ہیں؛ بعض تمھارے دینی بھائی ہیں اور بعض خلقت میں تمھارے جیسے بشر ہیں (غیر مسلم) جن سے لغزشیں بھی ہوجاتی ہیں اور انھیں خطاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جان بوجھ کر یا دھوکے سے ان سے غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں۔
لہٰذا انھیں ویسے ہی معاف کردینا جس طرح تم چاہتے ہو کہ پروردگار تمھاری غلطیوں سے درگذر کرے کہ تم ان سے بالاتر ہو اور تمھارا ولی امر تم سے بالاتر ہے اور پروردگار تمھارے والی سے بھی بالاتر ہے۔
رحمت، محبت اور شفقت
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اپنے دل میں دوسروں کے لیے رحمت، محبت اور شفقت کو جگہ دو۔ یہ تعلیمات اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ایک انسان کو چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان، دوسرے انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آنا چاہیے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے دل میں دوسروں کے لیے نرمی اور محبت رکھیں، اور ان کی مشکلات اور درد کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
مخلوق خدا کے لیے ظالم درندہ نہ بنو
امام علی (ع) نے خبردار کیا کہ دوسروں کے حق میں ظالم درندہ نہ بنو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں کبھی بھی کسی انسان کو نقصان پہنچانے یا ان کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ہر انسان کو عزت اور احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھتا ہو۔
انسانوں کی دو اقسام
امام علی (ع) نے فرمایا کہ انسان دو قسم کے ہوتے ہیں:
1. دینی بھائی: یعنی وہ لوگ جو آپ کے مذہب کے ساتھی ہیں۔
2. تخلیق میں تمہارے جیسے انسان: یعنی وہ لوگ جو مذہب میں آپ کے ساتھ نہیں ہیں لیکن انسانیت میں آپ کے جیسے ہیں۔
یہ پیغام انسانی مساوات اور بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے۔ چاہے کوئی بھی مذہب ہو، سب انسان ایک جیسے ہیں اور سب کا احترام ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر انسان کو اس کی انسانیت کی بنیاد پر عزت دیں اور اس کے ساتھ عدل و انصاف کا سلوک کریں۔ دنیا میں اٹھ ارب انسان ہیں لیکن اکثر آپ کے دینی بھائی نہ ہیں لیکن بشر ہونے اور انسان ہونے میں آپ جیسے ہیں۔
دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف
اسلام نے دشمنوں کے ساتھ دشمنی کے بھی آداب بتائے اور فرمایا کہ خبردار کسی قوم سے دشمنی ہے تو حد سے آگے نہ بڑھنا، تمھارے افعال، کردار اور گفتار مٰں عدالت ہونی چاہیے، قرآن مجید میں آیا ہے کہ خبردار کسی کی دشمنی تمھیں اس بات پہ وادار نہ کرے کہ تم ان پہ ظلم کرو، عدالت سے کام لو بیشک تمھارا دشمن ہی کیوں نہ ہو؛
… وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَـَٔانُ قَوۡمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعۡدِلُواْۚ ٱعۡدِلُواْ هُوَ أَقۡرَبُ لِلتَّقۡوَىٰۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرُۢ بِمَا تَعۡمَلُونَ۔ سورہ المائدہ٨
… اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے اور اللہ سے ڈرو، بےشک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔
عدالت علوی میں خلیفہ اور مزدور برابر ہیں!
عدالت علوی کی ایک مثال آپ کے سامنے ہے کہ ابی رافع نقل کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر امیرالمومنین (ع) کے پاس آئے اور کہا: جناب عمر نے بیت المال سے ہمیں زیادہ حصہ دیا۔ امام (ع) نے فرمایا: رسول خدا (ص) کتنا دیتے تھے؟ وہ خاموش ہوگئے۔ امام (ع) نے مزید فرمایا: کیا رسول خدا (ص) اموال کو برابر تقسیم نہیں کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ایسا ہی تھا۔ امام (ع) نے فرمایا: آپ کے نزدیک رسول خدا (ص) کا طریقہ درست ہے یا عمر کا؟
انہوں نے کہا: بے شک رسول خدا (ص) کا طریقہ۔
انھوں نے کہا: لیکن ہم اسلام لانے میں سابقون میں سے ہیں اور ہم نے اسلام میں زیادہ خدمات انجام دی ہیں اور زیادہ قربانیاں دی ہیں اور ہم رسول خدا (ص) کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ امام (ع) نے فرمایا: آپ کا اسلام میں سابقہ زیادہ ہے یا میرا؟ انہوں نے کہا: آپ کا۔ امام (ع) نے فرمایا: آپ کی قرابت اور وابستگی رسول خدا (ص) سے زیادہ ہے یا میری؟ انہوں نے کہا: آپ کی۔ امام (ع) نے فرمایا: میری اسلام کے لیے قربانیاں زیادہ ہیں یا آپ کی؟ انہوں نے کہا: آپ کی۔ پھر امام (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم میرے اور اس مزدور کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے اور اپنے دست مبارک سے مزدور کی طرف اشارہ کیا۔ بحارالانوار، ج41، ص
غلطیوں سے درگزر
امام علی (ع) فرماتے ہیں کہ ہر انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں، چاہے وہ جان بوجھ کر ہوں یا غیر ارادی طور پر۔ ہمیں دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا چاہیے اور ان سے درگزر کرنا چاہیے، اسی طرح جیسے ہم چاہتے ہیں کہ اللہ ہماری غلطیوں کو معاف کرے۔ اس اصول کا مقصد معافی، شفقت اور درگزر کی تعلیم دینا ہے تاکہ معاشرے میں محبت اور ہم آہنگی پیدا ہو۔
اللہ کی بالادستی
امام علی (ع) یاد دلاتے ہیں کہ ہر انسان کے اوپر اللہ کا حکم ہے۔ یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ہمیں اپنے تمام اعمال اور فیصلے اللہ کی رضا کے مطابق کرنے چاہئیں، کیونکہ ہم سب کو اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔ یہ اصول ہمیں انصاف، عدل اور حق کی پیروی کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
یہ اقتباس امام علی (ع) کی تعلیمات پر مبنی ہے جو انسانیت، عدل، محبت اور رحم دلی کے اصولوں کو بیان کرتا ہے۔ چاہے ہم مسلمان ہوں یا غیر مسلم، ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ محبت، احترام اور عدل کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ ہمیں دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کرنا چاہیے اور ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ ہمارے اوپر ہے اور ہم سب کو اس کے سامنے جواب دہ ہونا ہے۔ اس طرح ہم ایک پرامن، ہم آہنگ اور انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔
حوالہ جات:
۱۔https://www.hadithlib.com/hadithtxts/view/30022773
۲۔ https://www.hadithlib.com/hadithtxts/chel/1205924