اسلامی ثقافت و فکر کے تحقیقی ادارے کے تعلقات عامہ کی رپورٹ کے مطابق، بدھ کے روز ۷ جولائی ۲۰۲۴ء کو پاکستان کے شیعہ اساتذہ اور محققین کا ایک گروپ ( جن میں ڈپارٹمنٹ آف فیتھ اینڈ ریزن کے چیف ایکزیکٹیو استاد ڈاکٹر علی حسین عارف، ریسرچ ڈائریکٹر فاضلِ جامعہ الکوثر جناب حسین علی ہاشمی اور ریسرچ ایسوسی ایٹ جناب مولانا غلام رسول وَلایتی شامل تھے)، قم دفتر کے تحقیقی ادارے کا دورہ کرتے ہوئے ادارے کے اسلامی کلام اور جدید الہیات گروپ کے منتظمین اور علمی اراکین سے ملاقات اور گفتگو کی۔
اس دورے میں حجت الاسلام والمسلمین محمدباقر پورامینی (گروپ کے منتظم)، محمدحسن قدردان قراملکی، محمدصفر جبرئیلی اور محمد کاشیزادہ (جو ادارے کے کلام اسلامی اور جدید الہیات گروپ کے اراکین ہیں) کے ساتھ ساتھ محمدمہدی نجفی، جو تحقیقی ادارے کے صدرانہ شعبے کے سربراہ ہیں، بھی موجود تھے۔
ادارے کی تاریخ، کارکردگی، صلاحیتیں اور علمی اراکین کی مہارت پر مبنی ایک رپورٹ تحقیقی ادارے کے صدرانہ شعبے کے سربراہ کی جانب سے پیش کی گئی، جبکہ ادارے کے کلام اسلامی اور جدید الہیات گروپ کے منتظم کی جانب سے شائع شدہ پروگرام اور علمی کارناموں کی تفصیلات بھی پیش کی گئیں۔
اس دورے کے بعد، اسلامی دنیا میں کلامی رجحانات اور جدید دنیا کے اہم الہامی مسائل پر تبادلہ خیال کے سلسلے میں ایک سمپوزیم کا انعقاد کیا گیا، جس میں موجود اراکین نے گفتگو کیں۔
حجت الاسلام والمسلمین محمدباقر پورامینی، جو ادارے کے کلام اسلامی اور جدید الہیات گروپ کے منتظم ہیں، نے اس سمپوزیم میں فرمایا: "ایک اہم اقدام جس پر اسلامی دنیا کے شیعہ دانشور توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، وہ شیعہ مکتب فکر کی عقلیت پر زور دینا ہے۔ اس میں دو خصوصیات ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا:
سب سے پہلے، وہ بیرونی شبہات کا جواب دے سکتے ہیں، خاص طور پر فلسفیانہ اور سائنسی الحادکے میدان میں۔ اس سلسلے میں بہت سے نص پسند اور خاص طور پر سلفی رجحانات نہایت کمزور ہیں اور بدقسمتی سے ان کے پاس اپنے تعلیم یافتہ اور نوجوان پیروکاروں کے لیے کوئی موزوں جواب موجود نہیں ہے۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ماضی میں، جب مارکسی نظریات داخل ہونا شروع ہوئے تھے، صرف عظیم شیعہ مفکرین اور شخصیات اپنی منبعی عقل اور استدلالی صلاحیتوں پر ان شبہات کا جواب دیتے تھے۔ استاد شہید مطہری، جو اسلام میں عقلانیت کے پرستار اور مدافع تھے، نے تاریخی رجعت پسندی کے حامیوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انہوں نے ان رجحانات کے خطرات کو واضح کیا اور ان کے نتائج پر روشنی ڈالی۔
پورامینی نے مزید کہا:
دوسری خاصیت یہ ہے کہ عقل کے محور پر، ہم داخلی انحرافی رجحانات اور مکاتب فکر کا بھی مقابلہ کر سکتے ہیں۔ سلفی رجحانات، خاص طور پر وہابیت اور جزوی طور پر دیوبندیوں کے حیاتی اور مماتی رجحانات، کا تنقیدی جائزہ لینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انہیں عقلِ برہانی کے مسئلے میں چیلنج کیا جائے۔ یہ لوگ صرف بدیہی اور فطری عقل پر یقین رکھتے ہیں اور استدلالی عقل کو رد کرتے ہیں، جس کی وجہ سے صرف ظاہری روایت پر انحصار کرتے ہوئے دین کا غلط فہم مفہوم پیش کرتے ہیں۔
آخر میں انہوں نے زور دیا کہ شیعہ مکتب کے علمبردار، اشاعری اور ماتریدی کے مشترکہ ضمنی امکانات کو بروئے کار لا کر، باہمی تعاون کے ذریعے ان انحرافی رجحانات کا مؤثر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بجائے دفاعی موقف اختیار کرنے کے، ہمیں پہل کر کے پہلے قدم اٹھانا چاہیے اور اپنے حریف کو چیلنج کرتے ہوئے اسے جواب دینے پر مجبور کرنا چاہیے۔ توحیدِ ترسیمی دراصل سلفی رجحانات کا ایک مجموعہ ہے جن کا مبنی مشرکانہ ہے، چاہے وہ خود کو توحیدی ظاہر کریں۔ نہ صرف ان کے دعوے شرک پر مبنی ہیں بلکہ سلفیوں کی شدید افراطی رجحان کی وجہ سے وہ توحیدِ تجسیمی اور تشبیہ کو بھی فروغ دیتے ہیں۔ سلفیوں کے عقائد اور نظریات ابتدائی تین صدیوں کے زندہ سلف سے کافی مختلف ہیں، اور ان کے متعدد تضادات کی بنا پر صحابہ اور تابعین کو سلفی کہنا مناسب نہیں۔
شعبہ ایمان و عقل جامعہ الکوثر اسلام آباد کے محققین نے ان معزز محققین کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے علمی میدان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں شعبے کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جناب غلام رسول وَلایتی نے بتایا کہ غیر مسلم دنیا تقریباً ۹۳ فیصد نیا علم پیدا کر رہی ہے، یعنی وہ نئے نظریات اور خیالات پیش کر کے بشریت کے لیے بنیادی معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس کے برعکس، اسلامی ممالک کی یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے صرف ایک نہایت محدود حصہ میں نئے علم کی تولید کر پاتے ہیں اور عموماً پرانے نظریات کو دہراتے رہتے ہیں۔
علمی تولید کے اس میدان میں جمہوری اسلامی ایران کے محققین نے تقریبا باقی اسلامی ممالک کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اور ہمارے مذہبی علما بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر ادارہ "پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی” اس سلسلے میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ مجھے آپ کے علمی و تحقیقی کام پر فخر ہے اور میں آپ کی انتھک جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔