سوال
قرآن مین ایک طرف فرمایاگیا لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ؕ۶۴﴾(یونس:۶۴)
وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ۚؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ۟ وَ لَنۡ تَجِدَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مُلۡتَحَدًا﴿۲۷﴾ (کہف:۲۷)
اور دوسری طرف
مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۰۶﴾ (البقرۃ 106)
"إِذَا بَدَّلْنَا آیَةً مَكَانَ آیَةٍ” (النحل 101)
کہ اللہ بعض آیات کی جگہ دوسری آیات لے آتا ہے۔ تو کیا یہ آیات باہم متضاد نہیں؟ اگر “کلمات” نہیں بدلے جا سکتے تو “آیات” کیسے بدلی جا سکتی ہیں؟
جواب
یہ سوال درحقیقت "کلماتِ ” اور "آیات” کے مفاہیم میں باریک فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ورنہ قرآنِ مجید میں کوئی داخلی تناقض نہیں ہے۔ ان آیات کو سمجھنے کے لیے دونوں اصطلاحات کی مکمل وضاحت ضروری ہے؛
” کلمات” اور "آیات” میں بنیادی فرق
کلماتِ الٰہی کا مفہوم
کلمہ ، بشری استعمال میں اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی معنی پر دلالت کرے۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات ہر وہ شیء ہے جو اس کے وجود اور قدرت پر دلالت کرے۔ اس طرح تمام موجودات اللہ کے کلمات ہیں اور جس موجود میں اللہ کی قدرت کاملہ پر زیادہ دلالت ہو گی وہ اللہ کا کلمہ کہلانے کا زیادہ حقدار ہو گا۔ اسی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کلمہ کہا گیا ہے؛
اِنَّمَا الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۷۱)
بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں۔۔۔۔
عرفی اعتبارسےتواس کا یہی معنی ہی لیا جاتاہے لیکن اس معنی کے ذیل میں مختلف مصادیق ہیں جن کی بازگشت اسی ایک ہی معنی کی طرف ہے ۔ قرآن مجید میں بھی مختلف مقامات پر استعمال کیے گئے لفظ "کلمات”سے اس کے مختلف مصادیق مراد لیے گئے ہیں ؛ جن آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی (جیسے سورۃ یونس ۶۴ اور سورۃ الکہف ۲۷)، وہاں "کلمات” سے مراد شرعی قوانین یا احکام نہیں ہیں، بلکہ یہ درج ذیل مصداقی معانی کے لیے استعمال ہوا ہے؛
۱۔حتمی فیصلے
۲۔وعدے
۳۔وعیدیں
بلکہ یہ بعد الذکر دونوں امور کوئی مستقل عنوان نہیں ،بلکہ سابق الذکر (حتمی فیصلے) ہی کی توسیع ہیں اور اسی کے دائرہ کار کے تحت شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان مصداقی معانی پر قرآن کریم کی اور آیات بھی دلالت کررہی ہیں ،جن میں سے چند کو ہم بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں ؛
۱۔ وَ اَوۡرَثۡنَا الۡقَوۡمَ الَّذِیۡنَ کَانُوۡا یُسۡتَضۡعَفُوۡنَ مَشَارِقَ الۡاَرۡضِ وَ مَغَارِبَہَا الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا ؕ وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ الۡحُسۡنٰی عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ بِمَا صَبَرُوۡا ؕ وَ دَمَّرۡنَا مَا کَانَ یَصۡنَعُ فِرۡعَوۡنُ وَ قَوۡمُہٗ وَ مَا کَانُوۡا یَعۡرِشُوۡنَ﴿۱۳۷﴾(اعرافُ:۱۳۷)
ترجمہ:۔اور ہم نے ان لوگوں کو جو بے بس کر دیے گئے تھے اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنایا جسے ہم نے برکتوں سے نوازا تھا اور بنی اسرائیل کے ساتھ آپ کے رب کا نیک وعدہ پورا ہو گیا کیونکہ انہوں نے صبر کیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بنایا کرتے تھے اور جو اونچی عمارتیں تعمیر کرتے تھے وہ سب کچھ ہم نے تباہ کر دیا۔ وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ الۡحُسۡنٰی عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ کلمہ رب سے مراد وعدہ اور فیصلہ الٰہی ہے جو بنی اسرائیل کے بارے میں کیا تھا اور اس کلمہ رب کو الْحُسْنٰى خیر و خوبی کے ساتھ متصف فرمایا کہ یہ وعدہ خیر تھا جو بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ آج پورا ہوگیا۔
۲۔وَ لَقَدۡ کُذِّبَتۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَصَبَرُوۡا عَلٰی مَا کُذِّبُوۡا وَ اُوۡذُوۡا حَتّٰۤی اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا ۚ وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَکَ مِنۡ نَّبَاِی الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۳۴﴾ (انعام:۳۴)
ترجمہ:۔اور بتحقیق آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جاتے رہے اور تکذیب و ایذا پر صبر کرتے رہے ہیں یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی اور اللہ کے کلمات تو کوئی بدل نہیں سکتا، چنانچہ سابقہ پیغمبروں کی خبریں آپ تک پہنچ چکی ہیں۔
وَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ: اللہ کے فیصلے کو بدلنے والا کوئی نہیں ہے۔ یعنی تکذیب اور اذیت اور صبر کے بعد اللہ کی نصرت کا آنا حتمی فیصلہ ہے، جس میں کسی قسم کی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
۳۔وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِیۡنَ﴿۱۷۱﴾ۚ اِنَّہُمۡ لَہُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ﴿۱۷۲﴾۪ۖ۱ وَ اِنَّ جُنۡدَنَا لَہُمُ الۡغٰلِبُوۡن﴿۱۷۳﴾(صافات:۱۷۱۔۱۷۳)
اور بتحقیق ہمارے بندگان مرسل سے ہمارا یہ وعدہ ہو چکا ہے۔ یقینا وہ مدد کیے جانے والے ہیں، اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب آ کر رہے گا۔
ان تمام آیات اوران جیسی دوسری آیات سے یہ بات بالکل کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ "کلمات ” کے مصادیق میں سےوہ یقینی وعدے ہیں جو اللہ نے اپنے رسولوں اور اولیاء سے کیے ہیں (جیسے مومنین کے لیے کامیابی)، اور وہ حتمی وعیدیں (سزا کے وعدے) جو کفار و مجرمین کے لیے مقرر ہیں۔ یہ اللہ کے قضائی فیصلے ہیں جن میں کسی تغیر کا امکان نہیں ہوتا۔اسی طرح ہماری مورد نظرآیات میں بھی وعدے،وعیدیں اوراٹل فیصلے مراد ہیں ۔
جیسا کہ خودایک آیت کا سیاق اسی بات پردلالت کررہا ہے:
انَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾
جو ایمان لائے اور تقویٰ پر عمل کیا کرتے تھے۔
لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ؕ۶۴﴾(یونس:۶۴)
نتیجہ: کلمات سے مراد اللہ کےوعدےاور حتمی فیصلہ جات ہیں جو ازل سے ابد تک یکساں رہتے ہیں اور جنہیں کوئی طاقت بدل نہیں سکتی۔
آیاتِ شرعیہ کا مفہوم
جن آیات میں تبدیلی کا ذکر ہے (جیسے سورۃ البقرۃ ۱۰۶، سورۃ النحل ۱۰۱)، وہاں "آیۃ” سے مراد "آیۃ شرعیۃ” ہے، یعنی قرآن کے احکامی جملے، قوانین اور شرعی ہدایات۔ حکمتِ نسخ: یہ تبدیلی دراصل اللہ کی طرف سے تدریجی قانون سازی کا حصہ ہے،اللہ تعالی اپنے بندوں کی آسانی ،استعداد کی تکمیل اور وقت وحالات کے تقاضے کے تحت ایک حکم کو ایک مخصوص وقت کےلیےجاری فرماتا ہےاورجب قوم کی استعدادیا تقاضائےوقت بدلتا ہے تواس کی جگہ اس سے بہتریا اس کے مماثل دوسرا حکم نازل فرماتا ہے ۔آیات کی تبدیلی کے اس عمل کو”نسخ”کہتے ہیں۔
مثالیں: ابتدائے اسلام میں شراب کے احکام کا بتدریج نازل ہونا، یا نماز میں بیت المقدس سے کعبۃ اللہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی اسی حکمتِ نسخ کی مثالیں ہیں۔
نتیجہ:
آیات سے مراد شرعی احکام اور قوانین ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے کامل علم و حکمت کے تحت وقت اور حالات کی رعایت سے تبدیل کر دیتا ہے تاکہ بندوں کو ہمیشہ بہترین اور آسان ترین شریعت نصیب ہو۔
منطقی استدلال اور تناقض کا خاتمہ : قرآنِ مجید میں کسی قسم کا داخلی تناقض یا تضاد موجود نہیں ہےاورنہ ہی مدرجہ بالاآیات میں کسی قسم کا تضادہے،اسلیےکہ علمِ منطق کی رو سے کسی بھی دو باتوں میں تناقض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ دونوں باتیں ایک ہی معنی اور ایک ہی موضوع سے متعلق ہوں۔
اوران آیات میں تناقض کاجومسئلہ اٹھایاگیاہے یہ مسئلہ بنیادی طور پر "کلمات” اور "آیات” کے اصطلاحی اور لغوی مفہوم میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ ان دونوں اصطلاحات کا استعمال قرآن میں مختلف معانی اور مقاصد کے لیے ہوا ہے، اور یہی فرق تمام شبہات کو ختم کر دیتا ہے۔
چونکہ "کلمات” (حتمی فیصلے) اور "آیات” (شرعی احکام) دونوں نہ تو لغوی طور پر اور نہ ہی اصطلاحی طور پر ہم معنی ہیں اور نہ ہی ان کا موضوع ایک ہے، لہٰذا ان میں کسی قسم کا کوئی تناقض یا تضاد موجود نہیں ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ :
اللہ کے اٹل فیصلے اور یقینی وعدے (کلمات) کبھی نہیں بدلتے، لیکن وہ اپنے بندوں کی آسانی اور تربیت کے لیے شرعی قوانین (آیات) کو بدل سکتا ہے۔