سوال
درج ذیل آیات میں سے پہلی آیت ظاہراً یہ بتا رہی ہے کہ جناب مریم کوکافی تعداد میں فرشتے بشارت دینے آئے تھے جبکہ دوسری آیات سے پتہ چل رہا ہےکہ فقط روح الامین ہی جناب مریم کے ہاں تشریف لائے تھے؛ ظاہراً دونوں آیات متضاد نظر آرہی ہیں؟
"اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنۡہُ ٭ۖ اسۡمُہُ الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ (آل عمران:45)
وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ مَرۡیَمَ ۘ اِذِ انۡتَبَذَتۡ مِنۡ اَہۡلِہَا مَکَانًا شَرۡقِیًّا،فَاتَّخَذَتۡ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ حِجَابًا ۪۟ فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا (مریم:16-17)
جواب
ملائکہ کے بارے نازل ہونے والی آیات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بارگاہ الٰہی میں قرب کے حوالےسے ان کے درمیان فرق پایا جاتا ہےاس طرح کہ ان میں سے کچھ مقدم ہیں اور کچھ مؤخرہیں اورجو مؤخر ہیں وہ مقدم فرشتوں کے اوامر کی پیروی کرتےاور سراپاان کے پیچھے رہتے ہیں ،بایں معنی ٰکہ مؤخر فرشتوں کا ہر کام مقدم فرشتوں والا ہوتا ہےاورانکی ہربات مقدم فرشتوں والی بات ہی ہوتی ہے،گویا بعینہ اسی طرح سے جیسے ہم اپنے افعال کا مشاہدہ کرتے ہیں اور یقین سے کہتے ہیں کہ یہ ہمارے افعال ہیں جبکہ وہ ہماری جسمانی قوتوں کے افعال ہوتے ہیں اور ہم انہیں دو طرح کے افعال نہیں کہتے،یعنی ایسا نہیں کہ ہماری جسمانی قوتوں کے افعال اور اعضاءجوارح کے افعال کوالگ قسموں میں تقسیم کیا جائے،
اسی طرح مقدم فرشتوں کے افعال مؤخر فرشتوں سے مختلف نہیں ہوتےبلکہ بعینہ وہی ہوتے ہیں،ان کے درمیان کوئی تقسیمی فرق نہیں پایاجاتا اور نہ ہی ان کے اقوال کے درمیان کوئی تقسیمی فرق پایا جاتا ہے،گویانہ تومقدم فرشتوں کے افعال واقوال مؤخرفرشتوں سے مختلف ہوتے ہیں اور نہ ہی مؤخر فرشتوں کے افعال واقوال مقدم فرشتوں سے مختلف ہوتے ہیں ،اوریہ بعینہ اسی طرح جیسے تمام فرشتوں کے افعال دراصل خدائی افعال کہلاتےہیں اوران کے اقوال خدائی اقوال کہلاتے ہیں۔
اور اس سارےسلسلےکی کافی ساری قرآنی مثالیں ہیں؛
"اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا”
موت کے وقت اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے۔
"قُلۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الۡمَوۡتِ الَّذِیۡ وُکِّلَ بِکُمۡ ”
کہدیجئے: موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرتا ہے ۔
"اِذَا جَآءَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡہُ رُسُلُنَا وَ ہُمۡ لَا یُفَرِّطُوۡنَ
جب تم میں سے کسی ایک کو موت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اس کی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔
اب ملاحظہ کیجئے کہ ان میں کی پہلی آیت میں موت دینے کی نسبت خداکیطرف،دوسری میں ملک الموت کی طرف اور تیسری میں فرشتوں کی طرف دی گئی ہے۔
وحی کی بابت بھی صورتحال اسی طرح کی ہے کہ کسی جگہ اپنی طرف منسوب کرکے ذکر کیااور کسی جگہ فرشتوں کی طرف نسبت دی ملاحظہ ہو؛
اِنَّاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ” ”
(اے رسول)ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیجی۔
"نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ،عَلٰی قَلۡبِکَ لِتَکُوۡنَ مِنَ الۡمُنۡذِرِیۡنَ”
جسے روح الامین نے اتارا،آپ کے قلب پر تاکہ آپ تنبیہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔
"قُلۡ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ”
آپ کہدیجئے: جو کوئی جبرائیل کا دشمن ہے (وہ یہ جان لے کہ) اس نے (تو) اس قرآن کو باذن خدا آپ کے قلب پر نازل کیا۔
"کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ،فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ،فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ،مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ،بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ،کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ”
(ایسا درست) ہرگز نہیں! یہ (آیات) یقینا نصیحت ہیں۔پس جو چاہے! انہیں یاد رکھے ۔یہ محترم صحیفوں میں ہیں۔جو بلند مرتبہ، پاکیزہ ہیں۔یہ ایسے (فرشتوں کے) ہاتھوں میں ہیں،جو عزت والے، نیک ہیں۔
اب ان آیات میں بھی وحی کی نسبت ایک مرتبہ خودِباری تعالیٰ کیطرف،دوسری آیات میں روح الامین کی طرف اور آخری آیات میں فرشتوں کی طرف دی گئی ہے۔
ان آیات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنابِ مریم کےپاس فقط حضرت روح الامین آئے تھےلیکن چونکہ ان کے افعال ان سے مؤخر فرشتوں کے بھی افعال شمار ہوتے ہیں لہذا”اذقالت الملائکہ”کی تعبیر لانے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔
اسی طرح یہ بھی ممکن ہے حضرتِ جبرائیل علیہ السلام سے مؤخر اس طرح کے امور پرمقرر باقی فرشتے بھی اس موقع پران کے ساتھ موجود تھے،لہذاایک مقام پر مطلق طور پر ملائکہ کہ کر بیان کردیا جبکہ دوسری جگہ کسی مصلحت ومقتضائےحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ملائکہ کے سربراہ وسرکردہ(کہ جس کی لیڈر شپ میں وہ جناب مریم کے پاس آئے تھے)کو مینشن کرکے .ذکرفرمادیا