ڈاکٹر سید حسین نصر
ترجمہ :ڈاکٹر تحسین فراقی
(درج ذیل وقیع مقالہ ڈاکٹر سید حسین نصر صاحب کی مشہور کتاب Islam & the Plight of Modern Man کے آخری اور ایک اعتبار سے اہم ترین باب The Westren World & It’s Challenges to Islam کا ترجمہ ہے، اس باب میں ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ کتاب کے مباحث کو نہ صرف خوبی سے سمیٹ لیا ہے بلکہ فکری سطح پر عالم اسلام کو مغرب کی جانب سے در پیش مسائل و خطرات سے نمٹنے کیلئے اسلام کی فکری میراث کی روشنی میں رہنماء اصول فراہم کرنے کی کوشش بھی کی ہے)
مغرب کی کوکھ سے مختلف فیشن زدہ طرز ہائے فکر کم و بیش ایسی تیزی سے بر آمد ہوتے رہتے ہیں جس تیزی سے موسموں میں تبدیلی آتی رہتی ہے، ان کے مقابلے میں جدیدیت زدہ مسلمانوں نے جو دفاعی اور معذرت خواہانہ زاویہ نگاہ اپنا رکھا ہے وہ ان کی تنقیدی حس اور فرقانی روح کی کمی ہی کا شاخسانہ ہے، عام طور پر واضح کوتاہیوں پر ہی یا ایسی کوتاہی جس پر تنقید کرنا آسان ہو، تنقید کی جاتی ہے لیکن کسی شخص میں یہ ہمت نہیں کہ وہ کھڑے ہو کر ہمارے عہد کے بنیادی مغالطوں کو ہدف بنا سکے، اس بات کی نشاندہی کرنا بھی آسان ہے کہ روایتی مدارس میں طالب علموں کی زندگی حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی لیکن اس بات پر ڈٹ جانا اور یہ کہہ گزرنا نہایت مشکل کام ہے کہ آج کے جدید تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس کا بیش تر حصہ طالب علموں کے نفوس کےلئے کہیں زیادہ مہلک ہے بہ مقابلہ بعض مدارس کی حفظانِ صحت کے اصولوں سے عدم مطابقت رکھنے والی پرانی عمارات کے خطرات کے، اسلامی دنیا میں ایسے لوگوں کی تعداد شاذ ہے جو مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکیں اور عقل کلی اور روح کی شمشیر کے ذریعے اس کے اس چیلنج کی اصل و بنیاد کا جواب دے سکیں جو اسلام کو مغرب کی طرف سے در پیش ہے، آج ایسی ہی حالت ہے لیکن ایسی صورت حال کو باقی نہیں رہنا چاہیے، کوئی وجہ نہیں کہ اسلامی دنیا میں ایک نئی فکری جماعت کی بنیاد نہ ڈالی جا سکے، ایک ایسے طبقے کی، جو اسلامی وحی کے پیغام سے میسر ابدی اقدار کی روشنی میں جدید دنیا پر معروضی تنقید کر سکے اور جدید انسان کی قابل رحم حالت پر (اور اس کی ہر لحظہ بڑھتی ہوئی تشویش ناک حالت پر جس کا اسے سامنا ہے) خدا کے عطا کردہ اسلامی خزانوں کو لٹا سکے __
جیسا کہ پچھلے ابواب میں کہا جاچکا ہے، اسلامی دنیا میں آج اصلاً افراد کے دو ہی طبقے موجود ہیں جن کا تعلق مذہبی، عقلی اور فلسفیانہ مسائل سے ہے یعنی طبقہ علماء جن میں عام طور پر دیگر مذہبی اور روایتی مستند لوگ (مثلاً صوفیہ) شامل ہیں اور متجددین کا وہ طبقہ جسے اب بھی مذہبیات سے دلچسپی ہے لیکن اب ایک تیسرا طبقہ بھی بتدریج وجود میں آرہا ہے جو علماء کی طرح روایتی بھی ہے مگر جدید دنیا سے بھی آگاہ ہے، جہاں تک علماء اور دیگر روایتی روحانی شخصیات کا تعلق ہے، یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ وہ جدید دنیا اور اس کی پیچیدگیوں کا گہرا علم نہیں رکھتے لیکن وہ اسلامی روایت کے امین اور محافظ ہیں اور ان کے بغیر روایت کا تسلسل ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے، جدیدیّین ان پر معترض رہتے ہیں کہ وہ مغربی فلسفہ، سائنس اور جدید معاشیات اور اس قبیل کے دیگر علوم کی باریکیوں سے واقف نہیں لیکن یہ تنقید جو عموماً بڑی سہولت سے کر دی جاتی ہے اکثر و بیش تر غلط سمت میں ہوتی ہے، گذشتہ صدی میں اسلامی دنیا میں سیاسی اور معاشی قوت پر جو لوگ حاوی تھے انہوں نے مدارس کو اس سمت میں پیش قدمی کرنے کا شاذ ہی موقع فراہم کیا کہ ان کے علماء جدید دنیا سے غلط اثرات قبول کٹیے بغیر، اس سے بہتر طور پر واقف ہو سکیں، چند مقامات پر جہاں مدرسے کے نصابات میں ترمیم کی کوششیں کی گئیں ان کی تہہ میں بیش تر یہ مقصد پوشیدہ ہوتا تھا کہ کسی طرح روایتی نظام تعلیم کا حلیہ اس حد تک بگاڑ دیا جائے کہ اس کا خاتمہ ہو سکے، نہ یہ کہ ان مدارس کے نصابات میں ایسے کورس شامل کئے جائیں جن کے باعث اسلامی تعلیمات کی روشنی میں طلبہ جدید دنیا سے متعارف ہو سکیں، علاوہ ازیں اس قسم کے ادارے بنانے کی کوششیں نہ ہونے کے برابر کی گئیں جو روایتی مدارس اور جدید تعلیمی درس گاہوں کے درمیان پل کا کام دے سکیں __
بہرحال! جدیدیّین کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ علماء کو ایسی چیزوں سے بے علمی کا طعنہ دے سکیں جن پر حاوی ہونے کا انہیں سرے سے کوئی موقع ہی فراہم نہ کیا گیا، جہاں تک دوسرے طبقے کا تعلق ہے، جن کے رویوں کا پچھلے ابواب میں تجزیہ کیا جا چکا ہے وہ یا تو مغربی یونیورسٹیوں کی پیداوار ہیں یا اسلامی دنیا کی ان یونیورسٹیوں کی جو کم و بیش مغرب کی نقالی کرتی ہیں، اب قصہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا کی یونیورسٹیاں بجائے خود بحرانی حالت میں ہیں اور یہ بحران تشخص کے سوال سے ابھر رہا ہے کیونکہ ایک نظام تعلیم کا تعلق نامیاتی طور پر اس کلچر سے ہوتا ہے جس کی آغوش میں یہ برسرِ عمل ہوتا ہے، ایک جیٹ طیارے کو آپ ایشیا یا افریقہ کے کسی بھی ملک کے ہوائی اڈے پر اتار سکتے ہیں اور اسے اس ملک کا حصہ گردانا جا سکتا ہے لیکن ایک نظام تعلیم کو آپ محض در آمد نہیں کر سکتے، یہ حقیقت کہ اسلامی دنیا میں جدید جامعات ایک ایسے بحران سے دوچار ہیں جو مغرب میں موجود جامعات کے بحران سے مختلف ہے، بذاتِ خود اس دعوے کا ثبوت ہے، اس بحران کا ہونا فطری تھا کیونکہ مقامی اسلامی کلچر ابھی زندہ ہے __
مزید یہ کہ یہ بحران زیادہ تر ان لوگوں کو شدید طور پر متاثر کرتا ہے جو ان جامعات (Universities) میں تعلیم پاتے ہیں اور جنہیں عام طور پر طبقہ دانشوراں (Intelligentsia) کا نام دیا جاتا ہے، ”انٹلکچوئل“ کی طرح یہ اصطلاح بھی نہایت بدقسمت رہی ہے کیونکہ یہ جن لوگوں سے خاص ہے انہیں اکثر و بیشتر ”دانش“ کی ہوا بھی نہیں لگی لیکن بہرحال انہیں جس نام سے بھی پکارا جائے، ان میں سے اکثر میں جو مغربی طرز کی جامعات (Universities) کی پیداوار ہوتے ہیں، ایک بات مشترک ہوتی ہے، ہر مغربی چیز کی شدید للک اور ان چیزوں کے سلسلے میں احساسِ کمتری بھی جن کا تعلق اسلام سے ہو، متعدد جدید ذہن کے مسلمانوں کا مغرب کے مقابلے میں یہ احساسِ کمتری ہی، جو علاوہ مسلمانوں کے جدیدیت زدہ ہندوؤں، بدھوں اور ان دیگر مشرقیوں کے یہاں بھی عموماً پایا جاتا ہے جو بت پرستی کی جدید شکلوں کی آشفتہ مغزی (Psychosis) کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ مرضِ عظیم ہے جو اسلامی دنیا کو در پیش ہے اور وہ اسی گروہ کو سب سے زیادہ دق کر رہا ہے جس کے بارے میں توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ مغرب کے چیلنج کا مقابلہ کر سکے گا چنانچہ اسلام کی مغرب کے ساتھ مبارزت کا مسئلہ اس وقت تک زیرِ بحث نہیں آسکتا جب تک اس ذہنیت کو نگاہ میں نہیں رکھا جاتا جو بیش تر صورتوں میں جدید یونیورسٹی تعلیم کی پیداوار ہے __
ایک ایسی ذہنیت جو پچھلی صدی میں اکثر و بیش تر ان معذرت خواہانہ اسلامی ”تصانیف“ کی ذمہ دار ہے جو اسلام اور مغرب کے تصادم سے متعلق ہیں، اسلام اور مغرب کے تصادم سے پیدا شدہ بحران کے سلسلے میں اس معذرت خواہانہ، جدیدیت زدہ رویے میں کوشش یہ ملتی ہے کہ مغرب کے چیلنج کے جواب میں کھینچ تان کر کسی نہ کسی طرح یہ ثابت کر دیا جائے کہ اسلام کا یہ اور وہ عنصر مغرب میں اس وقت رائج فلاں فلاں صورت سے مطابقت رکھتا ہے جبکہ اسلام میں موجود بعض دیگر عناصر کے سلسلے میں، جن کیلئے تخیل کی طویل اڑان کے باوجود مغرب سے کوئی مثال دستیاب نہ ہو سکی ہو، صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ یہ غیر اہم ہیں یا پھر مابعد کے غیر متعلق الحاقات، اسلامی عبادات کی صحت بخش نوعیت اور پیغام اسلام کے مساواتی کردار کو ثابت کرنے کےلئے لاطائل مباحث پیش کئے گئے ہیں، اس لئے نہیں کہ یہ چیزیں خود اسلام کے کلی پیغام کے وسیع تناظر میں دیکھے جانے پر درست ہیں بلکہ اس لئے کہ ”حفظانِ صحت“ اور ”مساوات“ کے خیالات اس وقت مغرب کے مسلمہ افکار و معیار مانے جاتے ہیں یا کم از کم یہ کہ ہپی تحریک سے قبل مانے جاتے تھے، اس قسم کی واضح اور آسانی سے قابل دفاع خصوصیات کی توثیق کر کے، ان معذرت خواہوں نے مغرب کے کلی چیلنج سے صرف نظر کرنے کی کوشش کی ہے جس کے باعث اسلام کا قلب خطرے میں پڑ گیا ہے جسے دشمن کے غصے کو کم کر کے ٹالا نہیں جا سکتا، جب سرجری کی ضرورت ہو تو ایک ایسا نشتر ناگزیر ہو جاتا ہے جس کی مدد سے فرسودہ حصے کو الگ کیا جا سکے… جاری ہے