ڈاکٹر سید حسین نصر
ترجمہ :ڈاکٹر تحسین فراقی
(درج ذیل وقیع مقالہ ڈاکٹر سید حسین نصر صاحب کی مشہور کتاب Islam & the Plight of Modern Man کے آخری اور ایک اعتبار سے اہم ترین باب The Westren World & It’s Challenges to Islam کا ترجمہ ہے، اس باب میں ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ کتاب کے مباحث کو نہ صرف خوبی سے سمیٹ لیا ہے بلکہ فکری سطح پر عالم اسلام کو مغرب کی جانب سے در پیش مسائل و خطرات سے نمٹنے کیلئے اسلام کی فکری میراث کی روشنی میں رہنماء اصول فراہم کرنے کی کوشش بھی کی ہے)
اسی طرح جب باطل، مذہبی صداقت کی سلامتی کےلئے خطرہ بن رہا ہو تو اس صورت میں کوئی شے تنقید اور تنقیح کی تلوار کا بدل نہیں ہو سکتی، کوئی شخص بھی باطل سے صلح کر کے اور اسے اپنا دوست جتا کر اس کے منفی اثر کو زائل نہیں کر سکتا، یہ معذرت خواہانہ طرزِ فکر اس صورت میں اور زیادہ افسوسناک ہو جاتا ہے جب یہ اپنا رشتہ فلسفیانہ اور فکری سوالات سے جوڑتا ہے، جب ہم اس قسم کا معذرت خواہانہ لیٹریچر پڑھتے ہیں جو اس صدی کے آغاز میں زیادہ تر مصر اور برعظیم ہندوستان میں پیدا ہوا اور جس میں مذہب اور سائنس کے سلسلے کے انتہائی فرسودہ اور مردہ مباحث کی جگالی کی جاتی تھی جو وکٹورین انگلستان اور اسی دور کے فرانس میں ہوتے تھے اور اب اہمیت کھو چکے تھے، تو اس قسم کے لٹریچر کی کمزوری واضح ہو جاتی ہے جو اصل میں مغرب کے چیلنج کا جواب دینے کیلئے وجود میں لایا گیا تھا بلکہ اس وقت سے لے کر اب تک کے گزرنے والے دسیوں سالوں کے تناظر میں تو ایسا لیٹریچر اور بھی فرسودہ لگنے لگا ہے __
بہرحال! اُس زمانے میں روایتی علماء کی توانا آواز سننے میں ضرور آجاتی تھی جنہوں نے اپنے استدلال کو وحیِ الہی کے غیر مبدل اصولوں پر ڈھال کر مذہبی سطح پر ان چیلنجوں کا جواب دینے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ ان مباحث میں کار فرما مشہور فلسفیانہ اور مجرد افکار سے زیادہ واقفیت بھی نہ رکھتے تھے، یہ آواز نابود تو نہیں ہوئی لیکن رفتہ رفتہ کم ہوتی چلی گئی اور اس کے مقابلے میں جدیدیین کی آواز بلند سے بلند تر اور جارح ہوتی چلی گئی، اس واقعہ نے آج یہ افسوسناک صورتحال پیدا کر دی ہے کہ پڑھے لکھے طبقوں میں جدید تہذیب مغرب کے انتہائی گرم جوش دفاع کرنے والے عملاً وہ لوگ ہیں جو مغرب زدہ مشرقی ہیں، آکسفورڈ اور ہارورڈ میں پڑھنے والے انتہائی ذہین طالب علم بھی تہذیب مغرب اور اس کے مستقبل کے معاملے میں اتنے پُر اعتماد نہیں جتنے یہ ہمارے مغرب زدہ مشرقی جنہوں نے کچھ عرصے سے اپنا سب کچھ جدیدیت کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اب انہیں اپنے بت کی مکمل شکست و ریخت کے امکان کا اچانک سامنا ہے __
چنانچہ وہ اب اس بت سے چمٹنے کیلئے ہر طرح ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، جدیدیت زدہ مسلمانوں کیلئے، خصوصاً ان مسلمانوں کےلئے جو ان میں زیادہ انتہا پسند ہیں، اسلام کا ”حقیقی مفہوم“ ادھر کچھ عرصہ سے وہ ہو چلا ہے جو انہیں مغرب نے پڑھایا ہے اگر ”نظریہ ارتقا“ کا چلن ہے تو سچا اسلام ارتقائی ہے اگر سوشل ازم کا کوس بج رہا ہے تو پھر اسلام کی ”حقیقی تعلیمات“ سوشل ازم ہی پر مبنی ہیں، اس ذہنیت اور اس ذہنیت کے نتیجے میں پیدا شدہ تصنیفات کا شعور رکھنے والے لوگ اس کی ممیاتی ہوئی، غلامانہ اور جامد فطرت سے بخوبی آگاہ ہیں اور تو اور قانون کے میدان میں بھی بارہا ایسا ہوا کہ قطعی غیر اسلامی بلکہ دشمنِ اسلام قوانین کو آغاز میں بسم اللہ اور آخر میں و بہ نستعین کا اضافہ کر کے اپنا لیا گیا جبکہ ان دونوں مقدس کلمات کے درمیان پایاجانے والا مواد کسی نہ کسی مغربی ضابطہ فوج داری و دیوانی سے ماخوذ بلکہ نقل شدہ تھا اب اچانک اس گروہ کی آنکھوں کے سامنے جو مغرب کی پیروی میں اپنی روح کا سودا کرنے کی سوچ رہا تھا، خود اسی مغربی تہذیب کی لڑکھڑاہٹ کا ناقابلِ یقین منظر گھوم رہا ہے، ایسے لوگوں کےلئے یہ کتنا دردناک منظر ہوگا؟ __
چنانچہ وہ تمام حقائق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مغربی ”نظامِ اقدار“ کے دفاع کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں اور ان مغربی مفکرین پر غضبناک ہو جاتے ہیں جو خود جدید مغرب کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں اگر جدید تہذیب کی یہ واضح ٹوٹ پھوٹ جو جنگِ عظیم دوم کے بعد زیادہ کھل کر سامنے آنے لگی تھی، پہلی عالمی جنگ کے بعد ہی واضح ہوکر سامنے آجاتی جب ابھی ایشیا کی روایتیں کہیں زیادہ محفوظ تھیں تو امکانِ غالب ہے کہ ان روایتی تہذیبوں کا کہیں زیادہ حصہ بچایا جا سکتا تھا لیکن تقدیر کے ہاتھوں کو انسان کیلئے ایک اور رستے کی نقش گری کرنا تھی، بہرحال! آج کی صورتحال میں بھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے جیسا کہ ایک فارسی ضرب المثل کا مفہوم ہے ”جب تک درخت کی جڑ میں پانی موجود ہے بہتری کی امید کی جاسکتی ہے“ روایتی اصولوں کے مطابق سچی سرگرمی کے منہاج پر کسی مثبت کام کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے اور اسی میں اعلائے کلمتہ الحق اور اس کے مطابق عمل کا انتہائی مرکزی اور واضح کام شامل ہے، جہاں ایمان ہے وہاں مایوسی کی کوئی جگہ نہیں، آج بھی اگر دنیاے اسلام میں سچے دانشوروں کا ایک ایسا گروہ تشکیل دیا جا سکے جو بیک وقت روایتی بھی ہو اور جدید دنیا سے کاملاً آگاہ بھی تو مغرب کی دعوتِ مبارزت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور اسلامی روایت کی روح کو اس فالج سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، جس کے باعث اس کے دست و بازو خطرے میں ہیں __
اس بات کا اندازہ لگانے کےلئے کہ اسلامی دنیا میں اب بھی کیا کچھ بچایا جا سکتا ہے، یہ بات یاد رکھنا کافی ہوگا کہ مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت اب بھی اسلامی تہذیب کو ایک زندہ حقیقت سمجھتی ہے جس میں وہ جیتی ہے، سانس لیتی ہے اور دم دیتی ہے، انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اسلامی تہذیب حال کا حوالہ ہے، ماضی کا واقعہ نہیں، وہ لوگ جو اس تہذیب کو صرف ماضی کا حوالہ سمجھتے ہیں اس مختصر مگر غلغلہ خیز اقلیت کا جز ہیں جو دنیاے روایت میں زندہ نہیں ہیں اور جو اپنے لامرکز ہونے پر تمام مسلم معاشرے کو لامرکز قیاس کئے بیٹھے ہیں، اس صورتحال میں المیہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں من و عن یہ نقطۂ نظر کہ یہ تو ماضی کا حوالہ ہے، اکثر و بیش تر ان لوگوں کا ہے جو دنیاے اسلام کے متعدد ملکوں میں ذرائع ابلاغ پر قابض ہیں اور لوگوں کے ذہنوں اور نفوس پر بڑا گہرا اثر ڈال رہے ہیں، ایسا اثر جو ان کی قلیل تعداد کے مقابلے میں ناروا حد تک بڑھا ہوا ہے، کئی اسلامی ممالک میں یہ لوگ جو ریڈیو، ٹیلی وژن اور رسائل و جرائد کے ذرائع پر قابض ہیں، ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں اسلامی تہذیب انھیں صرف ماضی کی ایک شے نظر آتی ہے کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ مغرب کے سحر کے اس قدر اسیر ہو چکے ہیں کہ مغربی نقطۂ نگاہ کے سوا کسی اور زاویہ نگاہ سے چیزوں کو دیکھنا ان کے لیے کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا، خواہ یہ دوسرا زاویہء نگاہ عین ان کے دروازے پر زندہ حقیقت کی صورت ہی میں کیوں نہ موجود کھڑا ہو __
تعجب اس امر پر ہے کہ اسلامی دنیا کی اس ”مغرب زدہ اقلیت“ نے یہ مقام سیادت اس وقت حاصل کیا ہے جب مغرب مکمل طور پر اپنے لنگر کھو چکا ہے اور اسے معلوم نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے؟ اگر کسی سادہ عرب یا ایرانی کاشت کار کو مشرقِ وسطیٰ کے کسی بڑے ایئرپورٹ پر لاکھڑا کیا جائے اور اسے کہا جائے کہ وہ یورپینوں کو ملک میں داخل ہوتے ہوئے مشاہدہ کرے تو اور کچھ نہیں تو صرف لباس کا فرق جو ایک راہبہ اور ایک عملاً عریاں مغربی عورت میں پایا جاتا ہے، اس کے سادہ ذہن پر مغربی تہذیب کے مظاہر کی عدم یکسانیت کا احساس مرتسم کرنے کےلئے کافی ہوگا لیکن یہ سادہ سا منظر بھی ایک مکمل طور پر مغرب زدہ مشرقی کی نگاہ سے چوک جاتا ہے جو اور کچھ نہ بھی ہو بہرحال ایک خوش ارادہ شخص ہوتا ہے لیکن وہ نہیں چاہتا کہ وہ اس تہذیب کے واضح تضادات ہی کا سامنا کر سکے جس کی وہ بڑے چاؤ سے نقالی کر رہا ہے، کئی حلقوں میں اس طرز فکر کے غلبے اور تسلسل کے باوجود پچھلے تیس برسوں میں صورتحال کس قدر بدل گئی ہے، دو عالمی جنگوں کے دوران جو مسلمان یورپ گئے وہاں دریاے سین Seine یا ٹیمز کے کنارے اُگے ہوئے درختوں کو عملاً شجر الطوُبی اور ان دریاؤں کو انہار جنت سمجھتے تھے، شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر __
بہرحال! جدیدیت زدہ مسلمانوں کی اس نسل کے اکثر افراد نے اپنا تصور بہشت مغرب کو اور کمالاتِ جنت مغربی تہذیب کو قرار دے رکھا ہے لیکن آج مغرب پر بطور ایک دیوتا کے اندھا دھند اعتقاد اور اس کا یکساں نتیجہ دیکھنے میں نہیں آتا، اب ایسے زاویہ نگاہ کا امکان اس لئے نہیں رہا کہ پچھلے تیس برسوں میں مغرب کے اندرونی تضادات واضح سے واضح تر ہوتے چلے گئے ہیں، جدیدیت زدہ مسلمانوں کی نئی نسل تہذیب مغرب کی اقدار کی مطلقیت کے بارے میں اتنی پر اعتماد نہیں رہی جتنے ان کے باپ اور چچا تھے جو ان سے پہلے یورپ ہو آئے تھے، یہ بات بجائے خود ایک مثبت رجحان کہلا سکتی ہے، اگر یہ جدیدیت کے معروضی اور مثبت جائزے کا ابتدائیہ بن سکے لیکن اب تک اس صورت حال نے جدیدیت زدہ مسلمانوں کی صفوں میں صرف انتشار ہی کا اضافہ کیا ہے اور صرف یہاں وہاں چند مٹھی بھر ایسے مسلمان علماء کو جنم دیا ہے جو اس صورتحال کی نزاکت سے واقف ہیں اور انہوں نے مغرب کی کورانہ تقلید سے ہاتھ کھینچ لیا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اصل مسئلہ ابھی جوں کا توں ہے اور وہ ہے جدید دنیا کی صحیح نوعیت کے بارے میں اس گہرے علم کی کمی جس کی بنیاد اسلامی تہذیب کی میزان پر ہوتی، آج اسلامی دنیا میں بہت کم ایسے مستغربین (Occidentalists) ہیں جو اسلام کےلئے وہ کام انجام دے سکتے جو مستشرقین نے اٹھارہویں صدی سے اب تک یورپ کیلئے انجام دیا